کراچی کے شہری پچھلے تیس برسوں سے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کو تو بھگت رہے تھے کہ ان ہی کے آخری دور میں ایک دوسری مصیبت کے الیکٹرک کی شکل میں اہل کراچی کے سروں پر مسلط ہوگئی۔ جس کمپنی نے کے ای ایس سی کو لیا اس نے سب سے پہلے پاکستان کے انفرا اسٹرکچر کا گہرائی سے مشاہدہ کیا، ساتھ ہی پاکستانی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی نفسیات کا اور ان کی کمزوریوں کا بھی مطالعہ کیا کہ ان جماعتوں کو کس طرح اپنے دام میں پھانسا جا سکتا ہے۔ جب یہ ڈیل ہورہی تھی تو اس وقت وفاق میں ن لیگ صوبے میں پی پی پی کی حکومت تھی اور کراچی ایم کیو ایم کے کنٹرول میں تھا۔ ابراج کمپنی نے بڑی حکمت سے ان تینوں سیاسی پارٹیوں کو اس طرح اپنی گرفت میں لیا کہ کراچی کے عوام کے الیکٹرک کے ظلم کی چکی میں پستے رہے وہ چیختے چلاتے رہے لیکن ان تینوں جماعتوں نے ان دردناک چیخوں کو نہیں سنا۔ کے الیکٹرک نے اربوں روپے کے تانبے کے تار کی جگہ سلور کے تار لگائے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے شکایتیں متعلقہ حکام تک جاتی رہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں دونوں نے اپنے کان اور آنکھ بند کرلیے۔
کے الیکٹرک نے کراچی کے تمام صارفین کو چور سمجھ کر بجلی کی چوری کا سارا تاوان صارف سے وصول کرنے کا پروگرام بنایا اور زاید بل لوگوں کو بھیجنا شروع کردیے جس سے لوگ بلبلا اٹھے جب لوگ شکایات لے کر پہنچتے تو ان سے کہا جاتا کہ یہ تو اب کمپیوٹر میں آگیا ہے آپ کو تو اسے بھرنا ہو گا ہاں آپ اگر چاہیں تو اس کی قسطیں کرالیں اب وہ بندہ ہر ماہ بجلی کے ماہانہ بل کے ساتھ زبردستی کی قسطیں بھی بھرتا ہے جب دو تین اقساط باقی رہ جاتی ہیں اور وہ خوش ہوتا ہے چلو بہت جلد اس سے نجات ملنے والی ہے لیکن پھر میٹر کی خرابی کا بہانہ بنا کر اس کو دوبارہ لاکھوں روپے کے بل بھیج دیے جاتے ہیں یہ ایک ایسی خطرناک صورت حال ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ خود کشی کر چکے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے دنیا بھر کے تمام ممالک میں حکومتیں اپنے عوام کو بہتر سے بہتر سہولتیں پہنچانے کے لیے ایسی پالیسیاں بناتی ہیں ایسی قانون سازی کرتی ہیں جن سے عام لوگوں کو ریلیف ملے ہمارے ملک کی یہ عجیب کیفیت ہے کہ ہمارے حکمران تو عوام کو دوسرے کے ہاتھوں بیچتے رہے ہیں پرویز مشرف نے تو اپنی کتاب میں یہ اقرار کیا ہے کہ اس نے امریکا سے ڈالر لے کر اپنے ملک کو لوگوں کو فروخت کیا ان میں سے بیش تر آج بھی ایک کربناک زندگی گزار رہے ہیں۔
بالکل اسی طرح ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم تینوں نے کراچی کے شہریوں کو کے الیکٹرک کے ہاتھوں بیچ دیا ہے اب چوں کہ الیکشن قریب ہیں اس لیے بلاول بھی کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں اندھیروں کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے، شہباز شریف بھی جب کراچی آئے تو انہوں نے کہا کہ کراچی میں لوڈ شیڈنگ کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کہہ رہے ہیں کہ میں دو مرتبہ وفاقی حکومت کو کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف خط لکھ چکا ہوں لیکن مرکز سے کوئی جواب نہیں آیا حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بلاول اپنے والد محترم سے کہیں کہ وہ کے الیکٹرک کے اپنے دوستوں اور پارٹنر کو سمجھائیں کہ وہ کراچی کے شہریوں پر اتنا ظلم کریں جتنا وہ برداشت کرسکیں، اسی طرح وزیر اعلیٰ سندھ آصف زرداری کو خط لکھیں کہ وہ کے الیکٹرک پر اپنے اثر و رسوخ استعمال میں لائیں اسی طرح شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے کہیں کہ وہ کے الیکٹرک والوں کو سمجھائیں کہ الیکشن قریب ہے آپ کراچی کہ شہریوں پر ہاتھ ہولا رکھیں ہم جب دوبارہ جیت جائیں گے تو پھر ایک نئی ڈیل کر لیں گے۔ اس کے بعد ایم کیو ایم ہے ابھی حال ہی میں پی ایس پی کے مصطفی کمال نے ایک بیان دیا کہ فاروق ستار صاحب کے الیکٹرک والوں کو متنبہ کریں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کہ انہوں نے ان سے پیسے کھائیں ہیں آج سب ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں لیکن یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ فاروق ستار گروپ ہو خالد مقبول گروپ یا پی ایس پی یہی سب پہلے ایک تھے اور کے الیکٹرک سے ان کا گٹھ جوڑ تھا۔
یہ بات تو بہت عرصے قبل سوشل میڈیا پر آچکی ہے کہ کے الیکٹرک کے سابقہ چیف تابش گوہر نسرین جلیل کے بھانجے تھے جن کی اسی لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ تھی۔ اور اس ادارے کے ٹاپ موسٹ مناصب پر جو لوگ فائز تھے اس میں کوئی خوش بخت شجاعت کا بھانجا تھا کوئی ایم کیو ایم کے کسی لیڈر کا بھائی اور کوئی قریبی رشتہ دار تھا یہ سب بہت بھاری پیکج پر ملازمت کررہے ہیں ایک وقت تھا کہ جب کے الیکٹرک کا عملہ کسی کی بجلی کاٹنے آتا تھا یونٹ یا سیکٹر کوئی نامی گرامی دہشت گرد ساتھ آتا تاکہ اگر کوئی مزاحمت کرے اس سے وہیں نبٹ لیا جائے۔ سیکٹر میں جو لوگ اپنے بل کی شکایت لے کر جاتے تو ایسا نٹ ورک تشکیل دیا ہوا تھا کہ ایک دفعہ بل کم کرادیا جاتا لیکن اس کے ریکارڈ میں کم نہیں ہوتا وقتی طور پر تو آنے والا خوش ہوجاتا کہ اس کا بل کم ہو گیا لیکن تین چار مہینے بعد پھر اس کو پہلے سے زیادہ رقم کا بل وصول ہوتا اب وہ پھر اسے سیکٹر میں لے کر جاتا تو کہا جاتا کہ ایک دفعہ تو کم کرادیا اب بار بار نہیں ہو سکتا اب تم خود دفتر جاؤ یا پھر ہم اس کی قسطیں کرائے دیتے ہیں۔ وہ بے چارہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ ایم کیو ایم کا کے الیکٹرک کے ساتھ گٹھ جوڑ کا یہ حال تھا کہ جماعت اسلامی جو پچھلے تین سال سے کے الیکٹرک کے ظلم خلاف مہم چلارہی ہے وہ جہاں بھی جلسے یا جلوس یا مظاہرہ کرتی ایم کیو ایم کے الیکٹرک کے حق میں مظاہرہ کرتی آج فاروق ستار بھی پانی بجلی کے بحران پر مظاہرہ کررہے ہیں۔ پی ایس پی کے مصطفی کمال صاحب بھی تحریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چند ماہ بعد الیکشن آنے والے ہیں کراچی کے شہری یہ جانتے ہیں اس شہر میں اگر کسی نے کراچی کے عوام کے دکھ کو سمجھا ہے اور سنجیدگی سے اگر کسی نے کوئی مہم چلائی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس نے اب سے دو سال قبل کے رمضان میں کے الیکٹرک کے دفتر کے باہر دھرنا دیا تھا اس کے بعد گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جو تین روز تک رہا اس میں گورنر نے مذاکرات میں وعدہ کیا کہ وہ پندرہ روز میں کے الیکٹرک کے ذمے داروں کو بلائیں گے کراچی کے شہریوں کے مطالبات پر ان سے بات چیت کریں گے۔
جماعت اسلامی کے چیدہ چیدہ مطالبات یہ ہیں کہ کے الیکٹرک نے جو اربوں روپے کا تانبا چرایا ہے اس کا حساب دیا جائے پھر تین ارب سے زیادہ زاید بلنگ جو شہریوں سے زبردستی وصول کیے گئے ہیں وہ واپس کیے جائیں اسی طرح جب آپ نے میٹر کے چارجز صارفین سے لیے ہیں تو بل میں میٹر رینٹ کیوں لگ کر آرہا ہے پھر جب گرمیوں کی شدت ہوئی تو گیس کا بہانہ بنا کر اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شروع کردی اس کے خلاف تو پیمرا نے بھی وفاقی حکومت کو رپورٹ کیا لیکن جب وزیر اعظم خاقان عباسی کے الیکٹرک اور گیس کمپنی کا جھگڑا نبٹانے آئے تو انہوں نے بھی کے الیکٹرک کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ گیس کمپنی پر دباؤ ڈالا کہ وہ مطلوبہ طلب کے مطابق کے الیکٹرک کو گیس فراہم کرے اور کے الیکٹرک کو چور سمجھنے کے بجائے کراچی کے عوام کو چور بنادیا کہ جہاں جہاں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں وہاں لوڈشیڈنگ ہوگی۔ وزیر اعظم نے کے الیکٹرک کے خلاف ایکشن لینے اور اس سے جواب طلب کرنے کے بجائے اسی کے نخرے اٹھالیے، دال میں کالا نظر آتا ہے بلکہ اب تو پوری دال ہی کالی نظر آتی ہے۔
ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں کے کے الیکٹرک کے حوالے سے مگر مچھ کے آنسو دیکھ کر ہندوستان کے ایک شاعر عامر عثمانی یہ شعر زبان پر آتا ہے
میری تازہ لاش پہ عامر دنیا نے جب شور مچایا
وہ ایک سمت اشارہ کر کے خود بھی چیخے قاتل قاتل