پاک بھارت مشترکہ مشقیں 

223

چین کی شنگھائی تعاون تنظیم نے ستمبر میں روس کے علاقے اورل میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جنگی مشقیں کرانے کا اعلان کیا ہے، جس میں چین، قزاقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مشقون میں ایشیائی خطے کے دو دیرینہ دشمن پاکستان اور بھارت نے بھی شمولیت کی حامی بھری ہے۔ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ یہ دوحریف ممالک ایک ساتھ جنگی مشقوں میں یکجا ہو رہے ہیں اور یقینی طور پر اس کا سہرا چین ہی کے سر جاتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان ہمیشہ پڑوسی ملک کے ساتھ امن اور دوستی کا خواہاں رہا ہے لیکن بھارت کی جانب سے ہر دفعہ بے رخی برتی گئی۔ اس مرتبہ پاکستان نے چین کو گویا ثالث کی حیثیت دے دی ہے اور چین نے بھی اپنے منصب کا پاس رکھا۔ گزشتہ دنوں جب بھارتی وزیراعظم چین کے دورے پر آئے تو چین نے سب سے پہلے پاکستان کو اعتماد میں لینا ضروری خیال کیا۔ چین اس وقت دنیا میں امن پالیسی کا علم بردار بنا ہوا ہے۔ ایک ماہ قبل تک شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان تناؤ کے باعث لگتا تھا کہ کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے، لیکن شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے راتوں رات بیجنگ کا خفیہ دورہ کیا اور اب جوہری تنصیبات بند کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ سیؤل جاکر جنوبی کوریا کے صدر کو گلے بھی لگا لیا۔ شمالی کوریا کے رہنما دنیا بھر میں امریکا کی مخالفت میں جرأت اظہار کا استعارہ بنے ہوئے تھے، لیکن اس اقدام سے جہاں ان کی قلعی کھلی وہاں اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرکے چین نے دنیا میں اپنی برتری بھی منوالی۔ دوسری جانب اس وقت شام اور یمن میں خانہ جنگی کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران فریق بنے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں چین ہی کو قضیے کے حل کے لیے میدان میں آنا پڑجائے۔