جلسوں اور دعووں کی بہار

250

گزشتہ اتوار کو ملک بھر میں کئی جلسے ہوئے جن میں لاہور میں پی ٹی آئی کا جلسہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے بہت بڑا تھا۔ اب اس میں اہل لاہور یا اہل پنجاب کی تعداد کتنی تھی اور خیبر پختونخوا سے آنے والے کتنے تھے، یہ متنازع مسئلہ ہے لیکن یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کردیا جس پر عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اب پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا مقابلہ ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی پنجاب میں تیزی سے آگے بڑھی ہے لیکن کیا وہ پنجاب میں ن لیگ کی جگہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی، اس میں شبہ ہے کیوں کہ وسطی پنجاب میں اب بھی ن لیگ کا سکہ چل رہا ہے البتہ جنوبی پنجاب میں صورت حال مختلف ہے لیکن وہاں پی ٹی آئی کے علاوہ اور بھی کئی کھلاڑی ہیں۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو آصف زرداری پورا زور لگانے کے باوجود پنجاب میں قدم جمانے میں ناکام رہے ہیں۔ اب اس کا حل یہ نکالا ہے کہ پنجاب سے امیدوار کھڑے کرکے ان کی ضمانتیں ضبط کرانے کے بجائے آصف زرداری کا کہنا ہے کہ وہ آزاد امیدواروں پر داؤ لگائیں گے اور ان کی حمایت کریں گے۔ حمایت خالی خولی نہیں ہوتی اس کا ایک مطلب خریدو فروخت بھی ہے اور اس کام میں زرداری صاحب ماہر ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں وہ اپنا کمال دکھا چکے ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے پی ٹی آئی پر تبرّا بھیجنے کے باوجود اس کے گھوڑوں کو خرید لیا اور عمران خان نے، بقول کسے، پورا اصطبل ہی پیپلز پارٹی کے حوالے کر دیا۔ اب آصف علی زرداری پنجاب میں آزاد امیدواروں کو اپنانے کی تیاری کر رہے ہیں فی الوقت تو یہ ہوا ہے کہ بڑے بڑے جلسوں میں بڑے بڑے دعوے کیے گئے ہیں۔ ان دعویداروں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ وہ ہیں جو اقتدار میں کئی کئی باریاں لے چکے ہیں البتہ پی ٹی آئی کو ابھی صرف ایک صوبے میں اقتدار ملا ہے۔ انہوں نے لاہور کے جلسے میں اپنے منشور کے طور پر 11 نکات کا اعلان کیا ہے لیکن ان کے مخالفین پوچھ رہے ہیں کہ ان نکات کا اعلان خیبر پختون خوا میں کب ہو گا۔ وہاں تو ابھی یہ تعین نہیں ہو سکا کہ ایک ارب پودے لگانے کا دعویٰ کس حد تک پورا ہوا۔ صحت اور تعلیم کی صورت حال پر چیف جسٹس کڑی تنقید کر چکے ہیں۔ عمران خان کے 11 نکات میں کرپشن کا خاتمہ، یکساں تعلیم، صحت، روزگار اور سیاحت کا فروغ قابل ترجیح ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں جن سے کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا لیکن ابھی تو ہر طرف سے دعووں اور وعدوں کا مقابلہ چل رہا ہے۔ بلاشبہ کرپشن نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا ہے لیکن عمران خان تو اپنے 20 ارکان اسمبلی کو بھی کرپشن سے نہیں روک سکے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کو فارغ کر دیا گیا اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قرآن کریم پر حلف اٹھا کر الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ عمران خان نے اپنی پارٹی میں رکھے ہی کیوں تھے۔ ان کے سب سے بڑے مالی معاون جہانگیر ترین بھی نا اہل ہو چکے ہیں۔ اب عمران خان کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں خدا کرے کوئی تو یہ کام کر گزرے۔ جہاں تک ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم اور دینی مدارس کو قومی دھارے میں شریک کرنے کا تعلق ہے تو یہ بھی پوری قوم کا برسوں کا مطالبہ ہے خاص طور پر پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم تو بہت ضروری ہے کہ اس وقت ملک میں کئی طرح کے تعلیمی نظام رائج ہیں۔ ایک نظام صرف کلرک بناتا ہے اور دوسرا نظام حکمران طبقہ پیدا کرتا ہے۔ علماء کرام نے دینی مدارس کو سنبھالا ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان علما اور مدارس ہی نے ملک میں اسلام کو سنبھالا ہوا ہے ورنہ تو یہ ملک کبھی کا سیکولر اور لادین نظریات کے سیلاب میں بہہ جاتا۔ عمران خان کے ان نکات میں سب کو روزگار فراہم کرنا تو محض انتخابی نعرہ ہے البتہ سیاحت کو فروغ آسانی سے دیا جا سکتا ہے، خاص طور پر خیبر پختون خوا میں ایسے بے شمار علاقے ہیں جو سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں بس آمد ورفت اور قیام کی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ لوگ خود کھنچے چلے آئیں گے۔ یہ کام دوسرے صوبے بھی کر سکتے ہیں مگر جانے کیوں معمولی سی توجہ بھی نہیں کہ سیاحوں کو سہولتیں فراہم کی جا سکتیں۔ اتوار ہی کو پاکستان پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے فیڈرل کپیٹل یا ایف سی ایریا کو اپنے جلسے کے لیے منتخب کیا تاکہ ایم کیو ایم کا زور توڑا جا سکے۔ نو آموز اور نو عمر بلاول زرداری نے ایم کیو ایم اور لندن قیادت کو خوب خوب لتاڑا کہ اس نے کراچی کو یرغمال بنا رکھا تھا، بوری بند لاشوں اور بھتے کا ذکر بھی کیا۔ لیکن ان کو تقریر لکھ کر دینے والوں نے یہ نہیں بتایا کہ لندن والی ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومت میں کئی بار شریک رہ چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس کو اپنے کلیجے سے لگائے رکھا تاکہ صوبائی حکومت بچ جائے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے جب کھل کر ایم کیو ایم کا کچا چٹھا کھولا تو انہی کو چلتا کر دیا گیا ایم کیو ایم پر بلاول کے الزامات کوئی نئی بات نہیں لیکن ایم کیو ایم والے بھی تو پوچھ رہے ہیں کہ آپریشن پکا قلعہ میں سیکڑوں افراد کا قتل عام کس نے کروایا۔ بلاول نے طالبان کو عمران خان کا بھائی قرار دیا لیکن وہ اگر اپنی والدہ کے ٹی وی پروگرام کی وڈیو نکلوا کر دیکھ لیں تو اچھا ہو گا جس میں بے نظیر نے کہا تھا کہ: ’’میں طالبان کی ماں ہوں‘‘۔ اس رشتے سے تو بلاول طالبان کے بھائی ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے جواب میں اب ایم کیو ایم نے اگلے ہفتے اسی مقام پر جلسے کا اعلان کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ اس میں صرف علاقے کے لوگ شریک ہوں گے اور سرکاری ملازمین کو سادہ لباس میں لا کر نہیں بٹھایا جائے گا۔ اس معاملے میں ایم کیو ایم زیادہ تجربہ کار ہے۔ بہر حال انتخابی معرکہ گرم ہو چکا ہے اور سب ایک دوسرے کو لتاڑ رہے ہیں۔ ان میں سے سوائے متحدہ مجلس کے کسی نے بھی اسلام اور شریعت کا نام نہیں لیا کہ ان کا کیا لینا دینا۔ ایم ایم اے نے بھی مردان میں بڑا جلسہ کیا ہے۔ انتخابات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تو مستقبل کے پردے میں ہے لیکن اس دعوے میں بھر پور سچائی ہے کہ کرپشن فری پاکستان صرف مجلس عمل بنا سکتی ہے کہ اس میں شامل کسی پارٹی پر کرپشن کا داغ نہیں۔ عوام داغدار لوگوں کو نظر انداز کرکے ایسے لوگوں کو آزمائیں جو بے داغ کردار کے امین ہوں۔