شہر قائد۔۔۔ قیادت سے محروم نہیں!

335

یوں تو پورے پاکستان میں ’’گھڑمس‘‘ مچا ہوا ہے، قیادت کا وہ بحران ہے کہ ہر شخص قائد بننے کا دعویٰ کررہا ہے لیکن شہر قائد… کراچی کا بحران بھی کچھ کم گمبھیر نہیں ہے، یہاں بھی خود ساختہ قائدین کے ٹولے جگہ جگہ اپنی دکان سجائے لوگوں کو اپنی طرف بلا رہے ہیں لیکن ان میں کوئی بھی اہل کراچی کی قیادت کا اہل نہیں ہے اور ہمارے محترم دوست سینئر صحافی، دانشور، ادیب، شاعر اور کالم نگار جناب محمود شام یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ شہر قائد قیادت سے محروم کیوں چلا آرہا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ ’’کراچی کی آبادی بڑھ گئی ہے طاقت گھٹ گئی ہے، شہر پھیل گیا ہے زور سمٹ گیا ہے، تجارت زوروں پر ہے، متانت منہ چھپائے پھرتی ہے۔۔۔ شہر قائد کو آخر ہوا کیا ہے۔ جسے پورے پاکستان کی قیادت کرنی چاہیے تھی اب خود قیادت سے محروم ہے۔ آج یہ شہر قیادت کو ترس رہا ہے، سب کی نظریں اس پر ہیں، کبھی اس پر لاہور سے سیاسی لشکر کشی ہوتی ہے، کبھی پشاور سے، کبھی اندرون سندھ سے۔ اس کی زمینوں پر سب کی نگاہیں ہیں، اس کے ساحلوں کا حرص ہے لیکن اس کا درد کوئی نہیں بانٹتا‘‘۔ محمود شام کی تحریر درد میں ڈوبی ہوئی ہے، انہوں نے کراچی کے اُن سنہری دنوں کا ذِکر کیا ہے جب خود قائد اعظم اس شہر میں موجود تھے، پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی موجودگی اس شہر کو ڈھارس دے رہی تھی۔ ان کے بعد اہل کراچی نے نظریاتی محاذ آرائی کا دور دیکھا۔ ’’ایشیا سرخ ہے، ایشیا سبز ہے‘‘ کے نعرے لگائے گئے لیکن نظریاتی مخالفین بھی قد آور لوگ تھے۔ انہوں نے اپنی مخالفت میں تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، شہر امن و آشتی کا گہوارہ بنا رہا، ساری خرابی اس وقت شروع ہوئی جب اس شہر میں مہاجر قومیت کا نعرہ لگایا گیا اور مہاجر عصبیت کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت قائم کی گئی۔ ہمارے دوست نے اس واقعہ کا ذکر بڑے محتاط انداز میں کیا ہے لیکن وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب سیاست میں مہاجر عصبیت اور لسانی شدت پسندی غالب آگئی تو اسلحے کا استعمال ہونے لگا۔ پاکستانی پاکستانی کو ہلاک کرنے لگا، مہاجر مہاجر کو مارنے لگا اور شہر میں افراتفری پھیل گئی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ شہر قائد پر لسانی تنظیم کی اجارہ داری سے پہلے یہاں جماعت اسلامی کا راج تھا، یہ لوگ مہاجروں ہی میں سے تھے لیکن ان میں مہاجر قومیت اور لسانیت عصبیت کا زہر نہ تھا۔ وہ مہاجروں، سندھیوں، پٹھانوں، بلوچوں، پنجابیوں، سب کو ساتھ لے کر چل رہے تھے، ان میں ایکا تھا، اتحاد تھا، بھائی چارا تھا۔ بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد لسانی فسادات کے ذریعے اس اتحاد اور بھائی چارے کو توڑنے کی کوشش کی تو جماعت اسلامی کے کارکنوں نے جان پر کھیل کر اس کوشش کو ناکام بنادیا اور مہاجروں کو دل چھوڑنے نہ دیا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض ہوئے تو وہ کراچی میں جماعت اسلامی کی سیاسی قوت سے خائف ہوگئے، انہیں خفیہ ایجنسیوں نے بتایا کہ یہی وہ جماعت ہے جس سے ان کے اقتدار کو حقیقی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور کراچی کے عوام کی سیاسی بیداری ان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ چناں چہ انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی کا توڑ کرنے کے لیے مہاجر قومیت کو اُبھارا اور مہاجر قومی موومنٹ کی سرپرستی کی۔ ایم کیو ایم متحدہ قومی موومنٹ تو بہت بعد میں بنی ہے یہ پہلے مہاجر قومی موومنٹ ہی تھی اور الطاف حسین اس کے قائد تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں مرکزی مجلس شوریٰ (قومی اسمبلی) کے لیے غیر جماعتی بنیادوں پر پہلے عام انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم کے نوجوان کراچی میں سویپ کرکے بطور ارکان اسمبلی اسلام آباد آئے تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے صحافی کرتے اور پاجامے میں ملبوس ان سادہ اطوار نوجوانوں سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے کے بہت مشتاق تھے۔ اُس زمانے میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا اور وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں کا واحد ٹھکانا راولپنڈی پریس کلب تھا جو گورڈن کالج کے سامنے ایک بوسیدہ عمارت میں تھا۔ البتہ اس کا لان بہت وسیع تھا چناں چہ راولپنڈی و اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس نے پریس کلب میں ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کو ایک پرتکلف استقبالیہ دیا اور ان کے قائد الطاف حسین کو بڑی دلچسپی اور توجہ سے سنا۔ الطاف حسین بھی اُس وقت کرتے اور پاجامے میں ملبوس اکہرے بدن کے ایک نوجوان تھے۔ ان کے چہرے سے اس وقت بظاہر شرافت ٹپک رہی تھی اور لہجے میں انکساری تھی جسے صحافیوں نے بہت سراہا۔ ان کا خیال تھا کہ یہی لوگ کراچی بلکہ پورے ملک کی نمائندگی کے اہل ہیں اور ملک میں تعمیری انقلاب برپا کرسکتے ہیں لیکن زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہی شرافت خباثت میں بدل گئی اور یہی انکساری غرور اور گھمنڈ میں ڈھل گئی۔ ایم کیو ایم خوف اور دہشت کی علامت بن گئی۔ الطاف حسین کراچی کا ڈان بن بیٹھا اور اس کے کارندوں نے جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بنے ہوئے تھے پورے شہر کو یرغمال بنالیا۔ یہ لوگ شہر میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کرنے لگے، بھتا خوری ان کا کلچر بن گیا اور مخالفین کو قتل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل قرار پایا۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ تھا کہ یہ مہاجروں اور اردو بولنے والوں کی جماعت ہے لیکن اس نے سب سے زیادہ مہاجروں اور اردو اسپیکنگ نوجوانوں کا قتل عام کیا۔ صرف اس لیے کہ وہ اس کے طرز سیاست سے متفق نہ تھے، جماعت اسلامی مہاجروں کی جماعت تھی وہ کراچی میں تہذیب و شائستگی کی سیاست کررہی تھی اور وہی ایم کیو ایم کا سب سے بڑا نشانہ بنی۔ جماعت اسلامی اپنے نوجوانوں کی لاشیں اُٹھاتے اٹھاتے تھک گئی لیکن ایم کیو ایم کے ہاتھ شل نہ ہوئے۔
آخر یہ قربانیاں رنگ لائیں۔ لندن میں بیٹھ کر کراچی کو کنٹرول کرنے والا فرعون اپنی سیاسی موت مرگیا۔ ایم کیو ایم گروپوں میں بٹ گئی اور یہ گروپ آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ اہل کراچی نے سکھ کا سانس لیا۔ شہر کی رونقیں لوٹ آئیں، امن بحال ہوگیا تو ایسے میں وہ جماعت پھر عوام کی خدمت میں مصروف ہوگئی جو ایم کیو ایم کے آسیب سے پہلے شہر کی خدمت کررہی تھی۔ ہمارے دوست محمود شام صاحب بتائیں کہ اس شہر پر گزشتہ تیس سال تک ایم کیو ایم مسلط رہی، پیپلز پارٹی دس سال سے یہاں حکومت کر رہی ہے، تحریک انصاف بھی کراچی میں رونق لگائی رہتی ہے، رہی مسلم لیگ (ن) تو اس نے شہر کو بالکل ہی نظر انداز کردیا تھا اور ایم کیو ایم کے دست ’’حق پرست‘‘ پر بیعت کرلی تھی۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے سوا اور کون سی جماعت ہے جو بدلتے ہوئے حالات میں بروئے کار آئی ہے اور اہل کراچی کا کون سا مسئلہ ایسا ہے جسے وہ ایڈریس نہیں کررہی۔ لوڈشیڈنگ ہو، پانی کی کمیابی ہو، ٹریفک کا مسئلہ ہو، نادرا کی من مانیاں ہوں، شہر کا کچرا ہو۔ ان سب مسائل پر جماعت اسلامی کی مقامی قیادت بھرپور فعالیت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی امن وامان کی بحالی کے بعد اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی اصل جماعت کی طرف بھی رجوع کرے اور اُن سنہرے دنوں کو واپس لائے جب اس شہر میں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان نے حسن خدمت کا جادو جگا رکھا تھا۔ جماعت اسلامی میں اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ شام صاحب کا یہ گلہ درست نہیں کہ شہر قائد قیادت سے محروم کیوں؟ قیادت ہے بس لوگوں کو کھلے دل سے اس کا اعتراف کرنا چاہیے جیسے پہلے انہوں نے کیا تھا۔