زندگی کب تیور بدل لے کوئی نہیں جانتا

255

نذیرالحسن
nzr.hassan@gmail.com
اچانک ایک موڑ پر ایک خاتون کی کار سے میری موٹر سائیکل ٹکرائی اور میں 20 سے 25 فٹ بلند فضا میں اُڑتا ہوا زمین پر آ گرا۔ اور زمین پر کچھ اس طرح گرا کہ میرا آدھا دھڑ فٹ پاتھ پر اور آڈھا سڑک پر تھا
محسن ذوالفقار قائم خانی کی کہانی
زندگی بھی کیا چیز ہے۔ یہ دھوپ چھائوں، غم خوشی اور نشیب و فراز سے تو عبارت ہے ہی مگر کب اور کس لمحے اپنے تیور بدل لے اسے کوئی نہیں جانتا۔ جیسے حبس کے ماحول میں اچانک اَبر چھا جائے اور آن کی آن میں جل تھل ہوجائے۔ ہماری اس زندگی میں بھی کچھ اسی طرح ایسے موڑ بھی آتے ہیں کہ سب کچھ اچانک بدل کر رہ جاتا ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ زندگی نے اس کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے، مگر یہ مذاق نہیں ہوتا۔ زندگی یہ بتاتی ہے کہ میں ایسی ہی ہوں تب انسان کو زندگی کی حقیقی معنویت سمجھ آنے لگتی ہے۔ ایسا ہی کچھ 32 سالہ محسن ذوالفقار قائم خانی کے ساتھ ہوا۔ ایک حادثے کے نتیجے میں ان کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگیا مگر مایوس ہونے اور زندگی سے شکوہ کرنے کے بجائے انہوں نے اپنے عزم و ہمت سے ایک نئی دنیا کا پیکر تراشا۔ اس نئی دنیا میں مایوسی کے سوا اِن کے پاس سب کچھ ہے۔ محبت کرنے والے بھی اور محنت دینے والے بھی اور وہ ننھے منے بچے بھی جن کی ہنسی اور شور سے زندگی میں رنگ آتا ہے اور زندگی خوشنما محسوس ہوتی ہے۔ کوئی انہیں دیکھے تو ان کی ذات کا خلا محسوس ہی نہ کرپائے اور کرے بھی کیسے؟۔ کون سا کام ہے جو وہ نصف دھڑ سے مفلوج ہونے کے باوجود نہ کررہے ہوں۔ گاڑی بھی خود ڈرائیور کرکے آفس جاتے اور آتے ہیں اور وہیل چیئر پر زندگی کے تمام امور بھی بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے کا محاورا وہیل چیئر پر بیٹھے محسن کی زندگی کو دیکھ کر باآسانی سمجھ آتا ہے۔
محسن کے ساتھ کیا ہوا؟ آئیے انہی کی زبانی سنتے ہیں:
یہ 27رمضان 2005ء کی بات ہے جب میں اپنے کزن کے ساتھ موٹر سائیکل پر ٹیوشن سے واپس آرہا تھا ،تب اچانک ایک موڑ پر ایک خاتون کی کار سے میری موٹر سائیکل ٹکرائی اور میں 20 سے 25 فٹ بلند فضا میں اڑتا ہوا زمین پر آرہا اور زمین پر کچھ اس طرح گرا کہ میرا آدھا دھڑ فٹ پاتھ پر اور آدھا سڑک پر تھا۔ فٹ پاتھ کے کنارے سے ٹکرانے کی وجہ سے میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ مجھے لیاقت نیشنل اسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں میرا آپریشن ہوا۔ 2007ء میں ہم بھارت گئے جہاں نیو دہلی انڈین اسپائنل انجری سینٹر جو کہ اس حوالے سے ایشیا کا سب سے بڑا سینٹر ہے، وہاں ڈاکٹر ایچ ایس چھاپڑا نے میرا علاج کیا۔ آکوپیشنل تھراپی کی گئی، اس ڈاکٹر نے مجھے مایوسی سے نکالا اور بے حد موٹیویٹ کیا۔ میں نے وہاں انسانیت دیکھی، بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب کے میرا وہاں علاج ہوا۔ صرف ڈاکٹرز ہی نہیں جب ہم سڑک پر ہوتے تو لوگ رُک رُک کر ہم سے پوچھتے اور حوصلہ دیتے۔ جس وقت میں حادثے کا شکار ہوا اس وقت میں سرسید یونیورسٹی میں تھرڈ ایئر الیکٹرانک انجینئرنگ کا طالب علم تھا اس وقت زیڈ اے نظامی وائس چانسلر تھے، انہوں نے مجھے جس قدر سپورٹ فراہم کی اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ انہوں نے میرے اسپتال کے بیڈ روم ہی کو امتحان گاہ قرار دیتے ہوئے وہیں میرے امتحان کا بندوبست کیا، دوسمسٹر کے امتحانات میں نے وہیں دیے اور یوں وائس چانسلر کی وجہ سے میرا سال ضایع نہیں ہوا۔
بھارت سے آنے کے بعد میں نے ایس ایم لا کالج میں داخلہ لیا اور اسی دوران واٹر بورڈ میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر لگا جہاں اب میں 19 گریڈ کا سب سے کم عمر آفیسر ہوں۔ میں اپنی گاڑی خود ڈرائیور کرتا ہوں۔ فارغ اوقات میں ڈس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہوں۔ جب کہ کارساز پر واقع واٹر بورڈ آفیسر اینڈ کنونشن سینٹر کا وائس چیئرمین بھی ہوں۔
ان دنوں میں کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کررہا ہوں، میرا ارادہ ہے کہ میں قوتِ بصارت سے محروم لوگوں کی معاشی اور سماجی زندگی پر پی ایچ ڈی کروں۔ میری جو صورت حال ہے اس میں والدین، رشتے دار، دوست اور احباب عموماً حوصلہ شکنی کرتے ہیں مگر میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے سبھی نے حوصلہ دیا ان کا حوصلہ ہی میرا اصل اثاثہ ہے۔