مدینے جیسی ریاست کے دعووں کا موسم

383

اہل جمہوریت کو مژدہ ہوکہ پانچ سال کا جمہوری سفر بخیر وعافیت اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔ اس سفر میں تمام سیاسی جماعتیں جیت گئیں۔ وہ مسلم لیگ ن ہو، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی ہو یا ایم کیو ایم۔ اس سفر میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی جیت گئیں، نااہل اور اہل قائدین بھی اور وہ حرافہ بھی جس کا نام جمہوریت ہے۔ شکست ہوئی ہے تو عوام کی، جنہوں نے بڑے چاؤ سے پانچ سال پہلے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیے تھے لیکن آج ڈربے میں پڑے مرغوں کی طرح خاموش ہیں۔ خود تو اذانیں دینے کے قابل نہ رہے ایک بار پھر لیڈروں کی اذانیں سن رہے ہیں۔ جن میں سے ہر کوئی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرکے دعوے کررہا ہے کہ میری ہی راہ فلاح کی راہ ہے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن آرہے ہیں منہ زبانی حلوے پکانے اور جلسوں کی بہار نزدیک آتی جا رہی ہے۔ انتخابی منشور پیش کرنے کی رسم ادا کی جارہی ہے۔ انتخابی منشور پہلے ’’مناجات بیوہ‘‘ کی طرح ہوتے تھے جن پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ عمران خان کے لاہور کے جلسے نے اس میں بھی جدت پیدا کردی۔ جلسے میں پہلے ابرار الحق نے اعلان کیا ’’عمران خان دے جلسے چہ اج میرا نچنے نوں جی کردا‘‘ اس کے ساتھ ہی لڑکوں اور لڑکیوں نے ناچنا شروع کردیا۔ ناچ گانے کے بعد عمران خان ڈائس پر آئے۔ ایاک نعبدو وایاک نستعین سے تقریر کا آغاز کیا۔ پہلے اعلان کیا چین کی طرح لوگوں کو غربت سے نکال کر متوسط طبقے تک لے جاؤں گا پھر نہ جانے کیا مماثلت نظر آئی کہ کہہ بیٹھے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بناؤں گا۔ کوئی ہے جو عمران خان کو بتائے کہ نہ تو رسول کریمؐ نے نعوذ باللہ سوشلزم نافذ کرکے مدینے کی فلاحی ریاست تشکیل دی تھی اور نہ ہی چینیوں نے قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر چین کی موجودہ صورت گری کی ہے۔
کہہ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کے بعد جمہوریت کی تیسری دہائی آغاز ہونے کو ہے اب تک جمہوریت فوج سے تو اپنی عزت کی رکھشا کرپائی ہے لیکن عوام کے نکاح میں نہ آسکی۔ عوام کا وہی حال ہے نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ روزگار ہے اگر کچھ ہے تو لوڈ شیڈنگ ہے، مہنگائی ہے اور جان لیوا غربت ہے۔ عمران خان نے اس صورت حال کے ازالے کے لیے گیارہ نکات پیش کیے ہیں اور ساتھ ہی ریاست مدینہ کے احیا کا وعدہ بھی کیا ہے۔ عمران خان کے مقابلے میں متحدہ مجلس عمل بھی مدینے جیسی ریاست کی تشکیل، اللہ کی حاکمیت اور نظام مصطفی ؐ کی عمل داری کے لیے میدان عمل میں ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل بھی کہہ رہی ہے کہ ہم مدینے جیسی ریاست چاہتے ہیں اور عمران خان بھی یہی بات دہرا رہے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف ایک سیکولر جماعت ہے جس میں ہمیں علمائے کرام تو کجا مولانا کوثر نیازی جیسا بھی کوئی ایک عالم دین نظر نہیں آتا۔ جو یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ اسلام کے معاشی نظام، عدالتی نظام، خارجہ پالیسی یا تعلیمی پالیسی کے تفصیلی اسلامی احکامات جانتا ہے۔ اس کے برعکس متحدہ مجلس عمل علماء کرام کی جماعت ہے جو اسلام کے احکامات اور انہیں نافذ کرنے کے تقاضوں سے آگاہ ہیں۔ یہ ملک جب بھی مدینے جیسی ریاست بنا یہ کارخیر ان شاء اللہ علماء کرام کی جماعت ہی انجام دے گی۔ متحدہ مجلس عمل پر اب دہری ذمے داری عائد ہوگئی ہے۔ ایک عوام کو تحریک انصاف کے دعوے کے دھوکے سے بچانا اور دوسرے عوام کے سامنے ریاست مدینہ کے اصل خد وخال سامنے رکھ کر انہیں یہ بتانا کہ مدینہ جیسی ریاست کن بنیادوں پر استوار اور کن افکار پر عمل پیرا ہونے سے قائم ہوگی۔ متحدہ مجلس عمل کو چاہیے کہ وہ قرآن وسنت کے دائل سے مرصع نکات اپنے منشور کا حصہ بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرے اور انہیں بتائے کہ اگر کوئی مدینے جیسی ریاست کی تشکیل کا دعویٰ کرتا ہے تو عوام سے وعدہ کرے کہ اقتدار میں آکر مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرے گا۔
1۔ سود کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔ ایک اسلامی مملکت سود کی متحمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ سود اللہ اور اس کے رسول محمد ؐ سے جنگ کے مترادف ہے۔
2۔ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل اقتدار میں آکر ان تمام کو نجی ملکیت سے لے کر عوامی ملکیت میں دے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے صرف اس ایک حکم پر عمل سے ہی اتنے وسائل بیت المال میں آئیں گے کہ ہمیں خسارے اور خسارے کے بجٹ سے نجات مل جائے گی۔ جب خسارہ نہیں ہوگا تو ان شاء اللہ قرضے بھی نہیں لینے پڑیں گے۔
3۔ کشمیر کی آزادی کے لیے معذرت خواہانہ رویہ ترک کرکے اللہ کے حکم کے مطابق جہاد کا اعلان کیا جائے گا۔ افواج پاکستان کو حرکت میں لایا جائے گا۔ اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی برادری سے رجوع کرنے کی روایت کا خاتمہ کیا جائے گا۔ جس میں نقصان اور وقت کے زیاں کے سوا کچھ نہیں۔
4۔ اسلام کسی صورت اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرنے، اس کے مال پر قبضہ کرنے یا اس کی عزت کو پامال کرنے کے لیے کفار کا ساتھ دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ لہٰذا متحدہ مجلس عمل اقتدار میں آتے ہی ناٹو سپلائی لائن بند کردے گی۔ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اور امریکی انٹیلی جنس کو ملک بدر کیا جائے گا۔ امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیے جائیں گے کیوں کہ اسلام کسی ایسی ریاست کے ساتھ تعلقات کی اجازت نہیں دیتا جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہو۔
5۔ زرعی زمین کا مالک یا تو خود کاشت کرے گا یا پھر ملازمین کے ذریعے اپنی زمین کی کاشت کاری کرے گا۔ وہ زرعی زمین کو نہ تو کرائے پر دے سکتا ہے، نہ ٹھیکے پر اور نہ مزارت پر۔ جس کسی نے تین سال تک زمین کاشت نہیں کی وہ اس سے لے کر ریاست کے دوسرے شہری کو دے دی جائے گی۔
6۔ انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، سر چارج اور نہ جانے کن کن ناموں سے مختلف النوع ٹیکس غریبوں پر لگے ہوئے ہیں متحدہ مجلس عمل کے محترم قائدین جانتے ہیں کہ یہ سب حرام ہیں۔ ان کی قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ متحدہ مجلس عمل ان شاء اللہ اقتدار میں آکر ان تمام ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرے گی اور ان کی جگہ خراج، عشر اور زکوٰۃ کا نظام نافذ کیا جائے گا۔
7۔ متحدہ مجلس عمل اقتدار میں آکر ختم نبوت کے قوانین کو نافذ کرے گی اور ناموس رسالت کی حفاظت کرے گی۔
یہ چند نکات ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے محترم قائدین ان نکات میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں اور پی ٹی آئی جیسی سیکولر جماعت کی حقیقت عوام پر آشکار کر سکتے ہیں جس نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل ہی پاکستان کے عوام کو اسلام کے اس مرکز کی طرف واپس لاسکتی ہے جس سے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی سیکولر جماعتوں نے انہیں دور کردیا ہے۔ ان سیکولر جماعتوں کا وجود مصیبت بالائے مصیبت ہے۔