کشمیر پالیسی…. اس قدر بے اعتنائی کیوں؟

316

پاکستان اس وقت اپنے داخلی تضادات میں بُری طرح اُلجھا ہوا ہے، اِس کی کشمیر پالیسی یوں تو ابتدا ہی سے ابہام کا شکار چلی آرہی ہے۔ گزشتہ سَتر بہتّر سال کے دوران کئی مواقعے ایسے آئے جب پاکستان طاقت استعمال کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے قبضے سے چھڑا سکتا تھا، لیکن پاکستانی حکمران ہمت نہ دکھا سکے اور بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہوگئے۔ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد تو صورتِ حال ہی بدل گئی ہے، اب دونوں میں سے کسی ایک کی جانب سے طاقت کا استعمال ایٹمی تصادم کو ہوا دے سکتا ہے، جس سے پورا خطہ تباہی کی زد میں آجائے گا اور کشمیر کی آزادی تو رہی ایک طرف خود دونوں ملکوں کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اب پاکستان کے پاس واحد راستہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے بھارت پر دباؤ بڑھائے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت کو بھرپور سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت فراہم کرے۔ کشمیری اپنی آزادی کے لیے جانیں دے رہے ہیں، جدید اسلحے سے لیس بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے میں یکسر ناکام نظر آرہی ہے اس نے کون سا جنگی حربہ ہے جو کشمیریوں کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ اس نے پیلٹ گنوں کے ذریعے بے شمار کشمیری نوجوانوں کی بینائی چھین لی، اس نے کیمیاوی ہتھیاروں کے ذریعے گاؤں کے گاؤں راکھ بنا ڈالے، اس نے حریت پسند نوجوانوں پر قابو پانے کے لیے جنگی ہیلی کاپٹروں کا بھی بے دریغ استعمال کیا، اس نے عفت مآب کشمیری خواتین کی بے حرمتی کو بھی جنگی حربے کے طور پر آزمایا، لیکن ان تمام حربوں کے باوجود وہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد کرنے میں ناکام رہا بلکہ اس کے برعکس ان کے دلوں سے موت کا خوف جاتا رہا اور وہ نہتے ہونے کے باوجود زیادہ توانائی کے ساتھ دشمن کو للکارنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کے ترجمان اور قافلہ حریت کے سالار سید علی گیلانی کو کہنا پڑا کہ بھارت کشمیر میں اپنی جنگ سیاسی اور اخلاقی طور پر ہار چکا ہے، وہ کشمیر میں جیتنا خون بہائے گا اس کی ناکامی اسی قدر اس کا مقدر بنتی چلی جائے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آزادی کشمیریوں کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹر اس حق کے لیے مسلح جدوجہد کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ سید گیلانی کا کہنا تھا کہ کشمیری نوجوانوں کو مسلح جدوجہد پر خود بھارت نے مجبور کیا ہے۔ وہ کشمیریوں کی پُرامن سیاسی جدوجہد کے آگے سرتسلیم خم کردیتا تو کبھی یہ نوبت نہ آتی۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں خود بھارتی پالیسی ساز اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے جرنیل یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ محض طاقت کے استعمال سے ہم یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ بھارتی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ٖفوج یا عسکریت پسند دونوں میں سے کوئی بھی حتمی فتح حاصل نہیں کرسکتا یہ محاذ آرائی طول کھینچتی جائے گی اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ مذاکرات کیے جائیں اور آپس میں مل بیٹھ کر اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ بھارتی دانشوروں اور تھنک ٹینکس میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے۔ بھارت ماضی قریب میں کئی بار کشمیری لیڈروں سے براہ راست مذاکرات کی کوشش کرچکا ہے لیکن اسے ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور سید گیلانی سمیت کسی کشمیری لیڈر نے بھارت کی مذاکراتی ٹیم کو منہ لگانے پر آمادگی ظاہر نہیں کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت اپنی شرائط پر کشمیریوں سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے، وہ یہ مانے کو تیار نہیں ہے کہ کشمیر اندرونی بغاوت کا معاملہ نہیں، حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے، کشمیری داخلی خود مختاری نہیں، اپنا حق آزادی مانگ رہے ہیں جس پر وہ کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ پاکستان کو بھی مسئلہ کشمیر کا اہم ترین فریق سمجھتے ہیں اور پاکستان کے بغیر وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں جب کہ بھارت کی کوشش اور خواہش ہے کہ کسی طرح شہریوں سے براہ راست ’’مک مکا‘‘ کرلیا جائے لیکن بات نہیں بن پارہی اور دونوں فریق (بھارت اور کشمیری) اپنی اپنی جگہ اڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کو دباؤ میں لانے کے لیے ان کے خلاف طاقت کا بے تحاشا استعمال کررہا ہے جب کہ کشمیری انتہائی بے جگری کے ساتھ اس کی مزاحمت کررہے ہیں۔ حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برھان مظفر وانی کی شہادت کے بعد اس مزاحمت میں زیادہ شدت آئی ہے اور نوجوان اپنا تعلیمی کیریئر چھوڑ کر عسکری مزاحمت کا حصہ بن رہے ہیں۔ حزب کے سپریم کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرد مہری اور بھارت کی ہٹ دھرمی کے باوجود کشمیریوں کی عسکری مزاحمت حصول مقصد تک جاری رہے گی۔ انہوں نے پاکستان کی کشمیر پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرے اور بھارت کے خلاف جہد آزما کشمیریوں کو ہر نوع کی امداد فراہم کرے کہ کشمیری اپنی نہیں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر میں تیسرے فریق کی حیثیت سے پاکستان کی ذمے داریاں بہت زیادہ ہیں۔ ایک طرف وہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ کشمیریوں کی پشت پر پوری قوت سے کھڑا رہے اور ان کی مدد کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے اور دوسری طرف بھارت کو عالمی سطح پر دباؤ میں لانے کے لیے جارحانہ سفارت کاری کو معمول بنائے اور اس سلسلے میں تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لائے۔ ان میں سے ایک وسیلہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی ہے جس کے سربراہ پر کشمیری قائدین بھی بار بار احتجاج کرچکے ہیں لیکن اسے بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ کشمیر کمیٹی کا سالانہ بجٹ 17 کروڑ روپے ہے، اس کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ رقم کہاں خرچ ہورہی ہے حالاں کہ اس خطیر رقم سے مسئلہ کشمیر پر انگریزی اور عربی میں نہایت موثر لٹریچر تیار کرکے پاکستانی سفارت خانوں کو فراہم کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کمیٹی دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں موجود کشمیریوں کی مدد سے بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کرواسکتی ہے، خصوصاً عرب ملکوں میں کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرکے بھارت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرسکتی ہے۔ کشمیر کمیٹی کے پاس کشمیر کے حق میں کرنے کا بہت کام ہے اگر وہ کرنا چاہے تو! پاکستان کی کشمیر پالیسی انور مسعود کی اس شعر کی ترجمانی کررہی ہے۔
یا وہ کشمیر سے فوراً نکلے
ورنہ بھارت سے تجارت ہی سہی
پاکستان چاہتا تو یہی ہے کہ بھارت کشمیر سے فوراً نکل جائے، بصورت دیگر وہ بھارت سے دوستی اور تجارت کو ہی منتہائے مقصود سمجھتا ہے۔ یہی پالیسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی عوام نے انہیں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے، بالآخر یہ دعویٰ انہیں لے ڈوبا اور وہ عتاب الٰہی کا شکار ہو کر رہے۔ موجودہ حکومت بھی ان کی تابع مہمل بنی ہوئی ہے، حد یہ کہ جو لوگ آئندہ انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کررہے ہیں، کشمیر ان کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں، انہوں نے گیارہ نکات کی صورت میں اپنا انتخابی منشور تو بڑے دھڑلے سے پیش کیا ہے لیکن اس میں کشمیر کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ حالاں کہ کشمیر کا پاکستان کی سلامتی سے گہرا تعلق ہے۔ حاصل کلام یہ کہ پاکستان میں حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو اسے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ پوری قوت سے لڑنا پڑے گا اور بھارت کو جارحیت کے بجائے دفاعی پوزیشن پر لانے کے لیے عالمی دباؤ بڑھانا ہوگا کہ اس کے بغیر نہتے کشمیریوں کا تحفظ اور پاکستان کی سلامتی ممکن نہیں۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی اسی بے اعتنائی کا شکار رہی تو وہ بہت کچھ کھوسکتا ہے۔