افغانستان میں دو خوفناک دھماکوں میں 49افراد جاں بحق اور 110زخمی ہوئے ہیں۔ کابل اور قندھار میں ہونے والے ان دھماکوں میں چھ صحافی بھی مارے گئے جب کہ بی بی سی سے وابستہ ایک اور صحافی کو خوست میں گولی مار دی گئی۔ افغانستان میں ان تباہ کن کارروائیوں کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔ داعش جسے کچھ ہی عرصہ قبل تک محض ایک واہمہ، ایک پرچھائیں اور سراب سمجھا جارہا تھا اب اس خطے کی ایک زمینی حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے۔ حیرت کا مقام ہے جب ملکوں کی سرحدوں میں مکھی کے لیے پر مارنا ممکن نہیں رہا اُسامہ بن لادن سوڈان سے افغانستان پہنچ جاتے ہیں اور دنیا بھر حتیٰ کہ یورپ اور امریکا سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شام اور عراق میں داعش میں بھرتیوں کے لیے با آسانی پہنچ جاتے ہیں اور شام وعراق سے ان کے روابط افغانستان میں قائم ہوتے ہیں۔ دنیا اگر واقعی اپنی جدید ٹیکنالوجی اور مہارت کے ساتھ ان سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا اور ان رویوں کو روکنا چاہتی ہے تو پھر یہ میلوں کا سفر، بندشوں اور رکاوٹوں کو توڑتا ہوا کیسے طے ہوتا ہے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ابھی تو شاید مصلحت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے مگر عالمی منظر بدلتے ہی یہ راز طشت ازبام ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اس سے ان سرگرمیوں اور گروہوں کے سہولت کاروں کے طاقتور اور باوسیلہ ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس بات میں اب شک کی گنجائش نہیں رہی کہ داعش اپنا سفر طے کرکے افغانستان میں ڈیرے جما چکی ہے۔
افغانستان کا عدم استحکام، خانہ جنگی، مرکزیت سے محرومی، کمزور فوج اور بکھرا ہوا سوشل اسٹرکچر ایسے بے نام ونسب گروہوں کے لیے پنپنے کا بہترین مقام رہا ہے۔ القاعدہ سے داعش تک مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو زک پہنچانے کے بہانے کے طور پر استعمال ہونے والے سب گروہ اسی لیے افغان سرزمین کی جانب کھنچے چلے آتے رہے۔ افغانستان میں داعش کی آمد اور قوت و موجودگی کا اظہار طالبان کی طرح صرف افغان معاشرے کا درد سر نہیں۔ طالبان کا ایک داخلی ایجنڈا رہا اور انہوں نے افغانستان کی حدود سے باہر سوچنے اور دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
داعش کے آنے کے بعد اب طالبان کے اس محدود ایجنڈے کی بات زیادہ زور وشور سے ہونے لگی ہیں۔ جس پر کفن چور اور کفن چور کے والد مرحوم کی مثال صادق آتی ہے۔ اس کے برعکس داعش مسلسل ایک تحرک پزیر گروہ ہے جو اپنے ٹھکانے بدلتا جا رہا ہے۔ یہ القاعدہ سے آگے کی چیز ہے اسے جہاں موافق ماحول میسر آتا ہے وہیں کا رخ کرتی ہے۔ شام وعراق کی طرح افغانستان اس کا آخری ٹھکانہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کی طرف سے افغانستان میں ہونے والی اس نوعیت کی کارروائیاں پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ افغانستان میں کئی عسکری گروہ طالبان سے ٹوٹ کر داعش کے نام سے منظم ہو رہے ہیں اور اب طالبان سے افغانستان کی سرزمین چھیننا داعش کا مشن بن چکا ہے۔ داعش نے کئی مقامات پر طالبان کے خلاف بھی زوردار کارروائیاں کی ہیں۔ داعش کے بارے میں ایک اہم گواہی افغانستان کے سابق صدر حامدکرزئی نے دی تھی کہ اس خوں خوار عسکری گروہ کی مدد امریکی فوجی کر رہے ہیں جو داعش کے لوگوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ حامد کرزئی سر تا پا امریکی احسانات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بون کانفرنس کا انعقاد اور اس کے نتیجے میں حامد کرزئی کو صدر بنانا اور پھر دس سال تک ان کی حفاظت کا مشکل ترین کام امریکیوں کی ہی کرشمہ سازی ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ حامد کرزئی کا انکشاف گھرکے بھیدی کی گواہی ہے۔ امریکا نے حامد کرزئی کے اس بیان کی تردید نہیں کی۔ روس اور ایران بھی اشاروں کنایوں میں افغانستان میں داعش اور امریکا کے روابط پر بات کرچکے ہیں۔ داعش کے پھلنے پھولنے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اب افغانستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کارروائیاں ہونے لگی ہیں۔ ان کارروائیوں میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ جا رہا ہے۔ شام اور عراق میں داعش کی کارروائیوں کا یہی رنگ اور رخ رہا ہے۔ افغانستان میں داعش کے قدم مضبوطی سے جمنا علاقائی ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر افغانستان میں داعش کے قدم مضبوطی سے جمتے ہیں تو روس، ایران، پاکستان، چین اور وسط ایشیائی ریاستیں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ایسے میں اس عسکری گروہ کو امریکا کی حمایت حاصل ہو تو خطرہ دوچند ہوجاتا ہے۔ افغانستان میں امریکا کی فوجیں ہی کیا کم تھیں کہ اب شام کی طرح روس بھی داعش کے نام پر افغانستان میں آدھمکے گا۔ شام میں روس نے کسی دعوت کا انتظار کیے بغیر داعش کے خلاف اپنے کردار کا آغاز کیا تھا۔ افغانستان میں بھی روس پہلے سے براجمان امریکا کا انتظار کرنے کے بجائے ازخود اور پیشگی خطرے کے نام پر کارروائیوں کا آغاز کر سکتا ہے اور اس کام میں اسے داعش سے خوف زدہ مسلمان ملکوں کی مدد حاصل ہوسکتی ہے یوں افغانستان کی مثال آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں ایک ایسی پرامن تحریک برپا کرنے کی ضرورت تھی جو افغان حکمرانوں پر یہ دباؤ بڑھاتی کہ وہ آگ میں جلتے ہوئے اس معاشرے کو الاؤ سے باہر نکالنے کے لیے حکمت، تدبر اور ہوش مندی سے کام لیں اور اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کریں۔ پشتونوں ہی نہیں خطے کے سب انسانوں کا تحفظ اور بقا اسی نوعیت کی تحریک کی کامیابی میں مضمر تھی۔ گزشتہ برس افغانستان میں ہونے والے چند دھماکوں کے بعد سول سوسائٹی نے کابل حکومت کے خلاف احتجاج کرکے اس تحریک کی ابتدا کرنے کی کوشش کی تھی مگر افغانستان میں بیٹھی طاقتور قوتوں نے یہ کھیل پاکستان پر اُلٹ ڈالا اور پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرنے کے عمل کا آغاز کیا جس سے اس خطے میں بے پناہ قربانیوں سے حاصل ہونے والا امن ایک بار پھر خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان روزانہ کی بنیاد پرجاری یہ آنکھ مچولی کہاں جا کر رکے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ قبائلی علاقوں میں پی ٹی ایم کی سرگرمیاں بڑھتے ہی افغانستان میں ہزارہ آبادی کی طرف سے الگ وطن قیام کا مطالبہ سامنے آنے لگا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں نہلے پر دہلہ اور اس سیاست کو کہیں پر جا کر ختم تو ہونا چاہیے۔