توانائی کے شعبہ میں بد انتظامی معیشت کیلیے خطرہ بن چکی ہے

134

راولپنڈی (صباح نیوز ) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ تیل کی کم قیمتوں کے باوجود توانائی کے شعبہ کا گردشی قرضہ ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے ۔ 300 ارب روپے کے ایل این جی پاور پراجیکٹس سمیت کئی پراجیکٹس بجلی کی پیداوار میں ناکام ہو گئے ہیں اور ان پر لگا ہواکثیر سرمایہ ضائع ہو رہا ہے۔توانائی کے شعبہ میں بڑھتی ہوئی بد انتظامی ملکی معیشت اور سرمایہ کاری کیلیے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیاسی مداخلت، بدانتظامی، کرپشن اور غیر ضروری رازداری کی وجہ سے توانائی کا شعبہ سفید ہاتھی بن چکا
ہے جوگردشی قرضے کی صورت میں ملکی وسائل کو ختم کر رہا ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے جو 25 ہزار میگاواٹ کی پیداوار کے دعوؤں کی نفی ہے۔انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ، صنعتی پھیلاؤ، توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری اور ملک کی بہتر عالمی درجہ بندی کیلئے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ 1 ہزار ارب سے زیادہ کاگردشی قرضہ تھر کول سمیت توانائی کے متعدد منصوبوں میں نجی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔گر دشی قرضے کے باعث بر و قت رقم کی و صو لی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی مزید ا یندھن ا مپو ر ٹ کرنے کی صلاحیت بھی متا ثر ہو رہی ہے۔اسی وجہ سے حکومت کی بار بار پی ایس او کو اربوں روپے کی فنڈنگ بھی کرنی پڑتی ہے۔ نجی بجلی گھروں کو ادائیگیاں نہ ہونے سے یہ ایندھن خریدنے اور بینکوں کا قرض واپس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگرتوانائی کے شعبہ کا قرض فوری ادا کر کے اسے بحال نہ کیا گیا تو پاکستان کی عالمی درجہ بندی متاثر ہو سکتی ہے جس سے ملکی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔ گردشی قرضہ سے نمٹنے کے لیے لوڈ شیڈنگ کی پالیسی قابل اعتراض ہے کیونکہ اس سے صنعتی شعبہ کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔موجودہ صورتحال حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبہ کو فعال بنانے کے دعوؤں کی نفی ہے۔