قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا۔۔۔

373

مسلم لیگ ن کے راہنما چودھری نثار علی خان نے یہ کہہ کر مسلم لیگ کے نظریات کے حوالے سے ایک نیا سوال چھیڑ دیا ہے کہ مسلم لیگ کو دائیں بازو اور اسلامی اقدار پر مبنی جماعت سمجھا جاتا رہا ہے جب کہ پیپلزپارٹی کو بائیں بازو کے نظریات کی حامل جماعت کے طور پر پہنچانا جاتا رہا ہے، نوازشریف واضح کریں کہ ان کا نظریہ کیا ہے، کہیں یہ محمود اچکزئی کا نظریہ تو نہیں؟۔ یہ سوال مسلم لیگ ن کے اندر چند شخصیات کی صورت میں موجود ہے اور ان میں راجا ظفر الحق، شہباز شریف اور چودھری نثار کانام نمایاں ہے۔ راجا ظفر الحق اپنے مزاج اور پیرانہ سالی کے باعث اب اپنے بازوؤں میں نظریات کا جھنڈا لہرانے کی سکت محسوس نہیں کرتے اور وہ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ چکے ہیں البتہ چودھری نثار مسلم لیگ ن کو مسلم لیگ نام کی روایتی ڈگر پر واپس لانے کے انتظار میں دن گزار رہے ہیں جبکہ شہباز شریف چودھری نثار کی موجودگی کو اپنے لیے باعث تقویت سمجھ کر انہیں اِدھر اُدھر جانے سے روکے ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ہی سے مسلم لیگ کا امیج جاگیردار اشرافیہ اور طبقہ اُمرا کی جماعت کا رہا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی حکمران کو کوئی نئی جماعت تخلیق کرنے کا خیال آیا تو بدلے ہوئے سابقے اور لاحقے کے ساتھ قرعۂ فال مسلم لیگ کے نام ہی نکلا۔ یہاں تک کہ فوجی حکمرانوں کو جب بھی سیاسی انڈہ دینے کی خواہش ہوئی تو اس خواہش کا نام ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ رکھا تو جنرل ضیاء الحق نے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) اور پرویز مشرف کی ایسی ہی خواہش اور ضرورت کا نام مسلم لیگ قائد اعظم قرار پایا۔ یوں مسلم لیگ پاکستان کی سیاست کا ایک ایسا ٹریڈ مارک رہا جو کسی بھی دور، کسی بھی بوتل پر چپکا کر وقت گزارنے کے کام آتا رہا۔ پاکستان مسلم لیگ جونیجو کے ایسے ہی انتظام کی چھتری تلے تیار ہونے والے میاں نواز شریف وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مسلم لیگ کو اپنے نام سے منسوب کرکے اس کے مستقل حصے کو اپنا بنالیا۔ یوں مسلم لیگ کے ایک قابل ذکر حصے اور نام پر ان کی مستقل اجارہ داری قائم ہو گئی۔
تاریخ کے پورے سفر میں مسلم لیگ کا ٹریڈ مارک دائیں بازو کی علامت کے طور پر پہچانا جاتا رہا ہے۔ جاگیر دار، پیر صاحبان چوں کہ روایت اور قدامت پسند ہوتے ہیں اس لیے انہوں نے مسلم لیگ کو روایت پسندی کی راہوں سے بھٹکنے نہیں دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس سیاست کو چیلنج کیا اور پھر اسے خش وخاشاک کی مانند بہا کر لے گئے مگر جب عملی اقدامات اور آغاز سفر کا وقت آیا وہ مسلم لیگ کے طبقہ اشرافیہ ہی کو ہمنوا بنانے پر مجبور ہوئے کیوں کہ یہی پاکستان کی ایک زمینی حقیقت کے طور پر سیاسی اور انتخابی میدان میں موجود تھے۔ کہیں کھمبوں کا جادو بھی چل گیا مگر حالات پر جاگیرداروں، اشرافیہ اور اُمرا کی گرفت ڈھلی نہ پڑسکی۔ نوازشریف نے ملکی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مسلم لیگ کے ایک قابل ذکر حصے کو اپنی گرفت میں لیا تو اس وقت تک پاکستان میں سرمایہ دار بائیس خاندانوں کی اجارہ داری ٹوٹ چکی تھی۔ یہ بائیس خاندان سیاست میں زیادہ تر پس پردہ رہ کر کام کرتے تھے۔ اس طرح ملک میں حکمران کلاس کا حصہ جاگیردار ہی تھے۔ جنرل ضیاء الحق چوں کہ خود مڈل کلاس اور ایک پیش امام کے بیٹے اور مشرقی پنجاب کے مہاجر گھرانے کے فرد تھے اس لیے انہوں نے مغربی پنجاب کے روایتی جاگیرداروں کے مقابلے میں سیاست میں سرمایہ دار کلاس کو تیار بھی کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کرکے اس طبقے کو آگے بڑھنے میں مدد بھی دی۔ جنرل ضیاء الحق کی ’’خلائی مخلوق‘‘ کی مدد سے اس کلاس کی قیادت کے لیے نوازشریف آگے بڑھادیے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے ترقی کے پہلے زینے پر چھوڑتے ہوئے انہیں اپنی زندگی لگ جانے کی دعا بھی دی۔ شاید یہ قبولیت کا لمحہ تھا کہ جنرل ضیاء کی زندگی مختصر ہوگئی اور میاں نواز شریف نے ترقی اور عروج کے سفر میں پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
اسی کی دہائی تو سفر کی ابتدا اور ٹیک آف ہی میں گزری اور نوے کی دہائی میں عالمی سیاست اور ضرورتیں بدل کر رہ گئیں۔ سرد جنگ ختم ہو گئی اور نظریاتی کشاکش اور کشمکش اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ یونی پولر دنیا کے جھنڈے تلے گلوبلائزیشن کی لہر آگئی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دوردورہ ہوا۔ نظریات کے بجائے سرمائے، تجارت اور نئی منڈیوں کی کا رجحان غالب ہوا۔ اس وقت تک ملک میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن اور نواز شریف ایک متبادل قیادت کے طور پر اپنا لوہا منوا چکے تھے۔
نواز شریف چوں کہ سرمایہ دار کلاس کے نمائندے تھے، مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور جاگیر دار کلاس کے زخم خوردہ تھے اس لیے انہوں نے اپنی مسلم لیگ کو پیپلزپارٹی کے حقیقی متبادل کے طور پر بیرونی دنیا میں پیش کرنا شروع کیا۔ پیپلزپارٹی میں بائیں بازو کی سیاست تیزی سے دم توڑ رہی تھی اور بائیں بازو کے انکلز اب فقط عجائب خانوں میں سجے اور دھرے رہ گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کو واپسی کے لیے امریکا ہی سے نہیں خود اپنی اسٹیبلشمنٹ سے بھی مفاہمت کرنا پڑی تھی اور اس مفاہمت میں پارٹی کا بائیں بازو کا رنگ پھیکا پڑتا جا رہا تھا۔ اسی کی دہائی میں نواز شریف نے دائیں بازو کے اتحادیوں اور ’’تم نے ڈھاکا دیا ہم نے کابل لیا اب لینا ہے کشمیر ٹوٹے شملہ کی زنجیر‘‘، ’’شہید اسلام‘‘ جنرل ضیاء الحق کے نعروں اور تصویروں کے ساتھ انتخابی سیاست کی۔ جب وہ مسلم لیگ پر اپنی کلی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو انہیں مسلم لیگ کے قومی ٹریڈ مارک کو مستقل طور پر اپنانے کا خیال آگیا اور انہوں نے مسلم لیگ ن کے نام سے عوام کے طبقے، سرمایہ دار اور مڈل کلاس کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ انہوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خود کو پیپلزپارٹی کا بہترین متبادل بناکر پیش کیا۔ نوے کی دہائی شروع ہوتے ہی انہوں نے روایتی اتحادیوں اور نعروں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ یوں ان کی نظریاتی کایا کلپ کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا حیرت کا مقام ہے کہ نواز شریف کے دست راست کہلانے والے چودھری نثار کو یہ اندازہ ہونے میں اٹھائیس برس کیوں لگے؟۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ کہ نواز شریف پر بھی اپنی کایا کلپ کم وبیش اٹھائیس برس بعد آشکارا ہوئی کیوں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے انہوں نے کہا کہ میں پہلے نظریاتی نہیں تھا اب نظریاتی ہوگیا ہوں۔ اگر ان کی مراد موجودہ نظریات سے ہے تو اس سمت کا تعین اٹھائیس برس پہلے ہی ہوگیا تھا جب انہوں نے مسلم لیگ کو محمدخان جونیجو کی گرفت سے چھڑایا تھا اور اسے غلام مصطفی جتوئی اور اس طرح کے دوسرے سایوں سے بچا کر اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ چودھری نثار تک یہ خبر دیر سے پہنچی تو اس میں نوازشریف کا کیا قصور ہے؟۔ وہ اپنے نظریات کو پہلے چھپاتے تھے نہ اب چھپا رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک پورا تصور پاکستان ہے جو محض سڑکوں اور پلوں، میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں تک محدود نہیں بلکہ لامحدود اور وسیع ہے اور یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اورکہ یہ تصور عالمی ہئیت مقتدرہ کے تصورِ پاکستان سے بہت قریب ہے۔