عادل اعظم کے لیے ایک کالم!

269

ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ہولناک حد تک پانی کی قلت کا شکار ہے اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کی معیشت اور زراعت پر انتہائی خوفناک اثرات پڑ سکتے ہیں۔ پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو اس بھیانک صورت حال کا احساس تک نہیں، وہ صرف کرپشن کے نئے نئے طریقوں پر ہی سوچتے رہتے ہیں۔ ان کی ذہنی صلاحیت بیرونی ممالک سے فنڈز لینے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم کا نہ ہونا ہے۔ ذخیرہ نہ ہونے کے باعث پانی جمع نہیں ہوتا اور یوں بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دریاؤں میں ہر سال 145 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہوتا ہے مگر صرف 14 ملین ایکڑ فٹ پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اور 131 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال ضائع کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے باعث دنیا بھارت کی آبی جارحیت پر ہماری طرف داری سے اغماض برتی ہے، چشم پوشی کرتی ہے، ان کی نظر میں بھارت کا ڈیم بنانا اور دریاؤں کا رخ موڑنا درست اقدام ہے کیوں کہ ہمارے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں، ہم تو بارش کا پانی بھی ضائع کردیتے ہیں، دریاؤں کا پانی بھی ضائع کردیں گے، بھارت پانی کا زیاں نہیں کرتا سو، اسے ڈیم پر ڈیم بنانے کا حق ہے، اگر وطن عزیز میں ڈیم ہوتے تو بھارت آبی جارحیت کا مرتکب نہیں ہوتا، ہمارے عزیزان مصر کو پانی کے معاملے میں خود کفالت گوارہ ہی نہیں یہ ان کے لیے نقصان کا سودا ہے۔ ملک کا نقصان ان کے مفاد میں ہے۔
ہمارے سیاسی دانش ور اور سیاست دان جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر جمہوری کلچر کو کچلتے رہتے ہیں۔ لعنت ہے ایسی جمہوریت پر جو قوم کو ایک ڈیم بھی نہ دے سکی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم فوجی درخت کا ثمر ہیں۔ اگر جنرل ایوب خان کی حکومت ختم نہ کی جاتی تو کالا باغ ڈیم بن چکا ہوتا جو لوگ ایوب خان پر دریا بیچنے کا الزام لگاتے ہیں انہیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں عادل اعظم عزت مآب ثاقب نثار نے بعداز مرگ اپنے اعضا قوم پر نثار کرنے کا اعلان کیا تو ہم نے انہی کالموں میں گزارش کی تھی کہ چیف صاحب! بعد از مرگ آپ کے اعضا سے تو چند افراد یا کوئی ایک فرد ہی فیضیاب ہو سکتا ہے اگر آپ جیتے جی خود کو قوم کے لیے وقف کردیں تو ملک و قوم پر ایک ایسا احسان ہوگا جو تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔ ہم نے التجا کی تھی کہ وہ اپنا دماغ قوم کو عطیہ کردیں تو یقیناًناقابل فراموش ہستی بن جائیں گے۔ اداروں کے ایگزیکٹو کا احتساب تو سابق چیف جسٹس چودھری افتخار بھی بڑی بے رحمی اور بے رخی سے کیا کرتے تھے مگر کیا ہوا؟ ان کے سابق ہوتے ہی ان کے فیصلوں کو قانون کا مذاق اُڑانے اور خود کو نمایاں کرنے کے مترادف قرار دے دیا گیا۔ ہاں تو۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اگر عادل اعظم تاحیات عظمت کی علامت بننا چاہتے ہیں تو صاف شفاف پانی کی فکر کے ساتھ کالا باغ ڈیم کی بھی فکر کریں اگر وہ عدلیہ کی نگرانی میں کالا باغ ڈیم تعمیر کرادیں تو یہ قوم پر احساب ہوگا، ملک کی معیشت اور زراعت کے لیے نیک شگون ہوگا کیوں کہ سیاست دان تو اسے بدشگونی سمجھتے ہیں وہ کبھی کالا باغ ڈیم نہیں بنائیں گے، یہ سب ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں، ان سب کی بلی ایک تھیلے میں بند ہے جو صرف میاؤں! میاؤں! ہی کرسکتی ہے چوہوں کا شکار نہیں کرسکتی۔ جب تک چوہے زندہ ہیں ملک کی جڑیں کھوکھلی ہوتی رہیں گی اور المیہ یہ بھی ہے کہ عدلیہ کھلی آنکھوں سے یہ تماشا، یہ المیہ دیکھ رہی ہے۔