پاکستان ترقیاتی کاموں کے لیے بنا تھا؟

282

عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو نہیں ہوا لیکن عوام کو گھیرنے اور چارہ ڈالنے والی بیان بازی زور و شور سے جاری ہے۔ ہم ترقی دیں گے، ہم نے ترقی دی….. ہمارے مخالف ترقی کے دشمن ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف نے بہت سارے صحافیوں کو لاہور کی سیر کرائی۔ واضح رہے کہ ہم ان صحافیوں میں نہیں تھے بلکہ سی پی این ای کے اجلاس کے سلسلے میں لاہور گئے تھے، البتہ شہباز شریف صاحب نے وہاں سی پی این ای کے وفد کو ملاقات کا شرف بخشا اور گھنٹہ بھر اس بات کو ثابت کرنے پر لگا دیا کہ جیسی ترقی پنجاب میں ہوئی ہے ویسی ملک میں کہیں نہیں ہوئی ہے۔ اس بات میں کوئی زیادہ مبالغہ نہیں ہے اگر موازنہ کیا جائے تو باقی صوبوں کے مقابلے میں ترقی کے اعتبار سے پنجاب آگے ہی ہے۔ لیکن خیال رہے….. پنجاب ملک کا 65 فی صد ہے، اس کو اسی اعتبار سے دیکھنا ہوگا۔ اگر باقی صوبوں میں دس کروڑ خرچ ہوئے ہیں تو ان کی آبادی کے تناسب سے ان دس کروڑ کی شرح فی صد زیادہ ہوگی جب کہ پنجاب کے 25 کروڑ، آبادی کے تناسب سے کم شرح فی صد ہوگی، لیکن اعداد و شمار کا یہ کھیل عوام کی سمجھ میں نہیں آتا۔ میاں صاحب نے اپنی حکومت اور مرکزی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر بہت زیادہ روشنی ڈالی۔ اتنی روشنی تو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اعلان کے باوجود پنجاب میں نہیں ملی۔ یہاں بھی وہی بات سامنے آئی کہ کراچی میں پانچ چھ بڑی سڑکوں پر زبردست ترقی نظر آرہی ہے۔ تو لاہور میں دس بارہ علاقوں میں یہی ترقی نظر آرہی ہے۔ کام اب بھی جاری ہے۔ یہ کام کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں بھی جاری ہیں۔
بات خومخواہ شہباز شریف سے شروع ہوگئی ورنہ ہمارا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ میاں صاحب کی محنت پر پانی پھیرا جائے۔ ان کے اعداد و شمار درست بلکہ ان کا یہ دعویٰ بھی درست کہ ہم نے بڑے منصوبوں میں میگا کرپشن سے ملک کو بچایا ہے۔ میٹرو بس میں 70 ارب بچائے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا؟؟ کیا بھارت کا حصہ رہتے ہوئے وہاں سڑکیں، پل، عمارتیں، بجلی کے منصوبے، ڈیم وغیرہ نہیں بن سکتے تھے۔ کیا سیکولر بھارت میں سیکولر ازم نافذ نہیں کیا جاسکتا تھا؟ کیا وجہ تھی کہ قائد اعظم اور اس وقت کے مسلمانوں کی جید قیادت مسلمانوں کے لیے الگ ملک حاصل کرنے پر مصر تھی اور اس کے لیے عظیم الشان جدوجہد بھی کی۔ پنجاب، بلوچستان، کے پی کے یا سندھ….. سب کے وزرائے اعلیٰ اور ہر حکمران پارٹی کے ذمے داران یہی بتارہے ہیں کہ ہم ترقی دیں گے۔ ہم نے ترقی دی اور ہم نے ملک کو سنوارا ہے۔ کراچی کی طرف رخ کریں تو آج کل ایک نیا کھیل چل رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی یہاں کے کچرے کی فکر ہے، وزیراعظم کو بھی ہے، ایم کیو ایم کے چاروں دھڑوں کو بھی ہے، حکومت سندھ کو بھی کراچی کے کچرے، پانی اور سیوریج نظام کی فکر ہے۔ ایک دوسرے کو الزام بھی دیا جارہا ہے اور دعوے بھی کیے جارہے ہیں، لیکن یہ کچرا جمع کیوں ہوا…. یہ پانی کا معاملہ خراب کیوں ہوا…. سڑکیں کیوں ٹوٹ گئیں…. اندھیرا کیوں چھا گیا۔ یہی لوگ جو ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں جو دعوے کررہے ہیں اس کے ذمے دار بھی ہیں۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کے فور کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ نعمت اللہ خان کے ٹرانسپورٹ منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی، ان کی چلائی ہوئی سیکڑوں بسوں کو غائب کردیا، پارکوں اور فلاحی پلاٹوں پر چائنا کٹنگ کی، اب سب مل کر کچرا اٹھانے اور نہ اٹھانے کی بات کررہے ہیں۔ مگر یہ کام تو بمبئی میں ہوتا ہے، کیا پاسکتان کچرا اٹھانے کے لیے بنا تھا؟؟۔ اصل خرابی یہی ہے کہ قوم کے ذہنوں سے ان کی یادداشت سے یہ بات کھرچ کر پھینکی جارہی ہے کہ پاکستان کیوں بنا تھا۔ بقول اجمل سراج

پاکستان کا اک مقصد تھا
مقصد پاکستان نہیں تھا

پاکستان بنانے والے سیکولر انڈیا کی موجودگی میں سیکولر پاکستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔ جمہوری ہندوستان کی موجودگی میں جمہوری پاکستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔ سڑکیں، عمارتیں اور پل نہیں بنانا چاہتے تھے، پوری تحڑیک پاکستان میں قائدین اور کارکنوں کی زبان سے کسی تحریر میں کسی تقریر میں کسی جلسے میں ایک لفظ ایسا نہیں کہا، لکھا یا بولا گیا کہ ہندوستان میں کچرا بہت ہے اس لیے ایک نیا ملک چاہیے۔ ہم پاکستان کا مطلب کیا…. والی بات نہیں کرتے۔ لیکن ان سوالوں سے ازخود یہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر پاکستان کا مطلب کیا تھا۔ یہ مطلب اور مقصد اس سیاسی اور انتخابی وعدوں اور دعوؤں کے ذریعے چھینا گیا۔ ایک خاص منصوبے کے تحت لوگوں کو سڑک، پل، بجلی، پانی ، گٹر اور کچرے میں اُلجھایا گیا ہے۔ 1970ء سے یہ کام شروع ہوا اور روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا گیا، حالاں کہ اس وقت متوسط اور غریب طبقہ بھی دو وقت کی روٹی باآسانی حاصل کرتا تھا۔ صبر شکر کرکے فرش پر سوجاتے تھے، لوڈشیڈنگ، بھتے، بدامنی کا نام تک نہ سنا تھا۔ 1977ء میں آخری مرتبہ ملک کو نظام مصطفی کے لیے متحد کیا گیا اور اس کے بعد سارے اتحاد، سارے الیکشن ترقی، پنجابی، سندھی، مہاجر کے نام پر لڑے گئے۔ اگر اب بھی پاکستان بنانے کے اصل مقصد کی طرف لوٹ آئیں تو کرپشن خود بخود ختم ہوجائے گی۔ جس روز اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کریں گے اس دن کے بعد لوگ سڑکوں پر کچرا پھینکنا بند کردیں گے، اسلامی اخلاقیات تو راستے سے رکاوٹ دور کرنے کو بھی ثواب بتاتی ہے۔ غربت بھی اسی سے دور ہوگی اور اسلامی حدود کے نفاذ سے جرائم بھی ختم ہوں گے۔ سارا کچرا اس ایک فیصلے سے اُٹھ جائے گا۔ فیصلہ قوم کو کرنا ہے۔ کچرا گلیوں سے اٹھانا ہے یا اس کے نام پر قوم کا کچرا پھر پانچ سال کے لیے سروں پر اٹھانا ہے۔