جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویہ

279

جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا حسن یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بات سنی اور سمجھی جائے۔ اگر سمجھ میں نہ آئے تو اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے ہوئے عوام کی خدمت کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے انتخابات ہوتے ہیں پارلیمنٹ بنتی ہے وہاں قوانین ، بجٹ اور دیگر مسائل پیش کیے جاتے ہیں۔ بحث ہوتی ہے اور پھر اتفاق رائے یا اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔ لیکن دھونس دھاندلی طاقت کا استعمال امن و امان برباد کرنا یہ سب جمہوریت نہیں اور جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویہ اور زیادہ خطرناک ہے۔ پیر کے روز پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی نے کراچی میں ایک ایسے مقام پر جلسہ کرنے کے لیے کیمپ لگا دیے جو عام طور پر سیاسی جلسوں کے لیے استعمال بھی نہیں ہوتااور رہائشی علاقہ بھی ہے۔ گلشن اقبال میں اردو یونیورسٹی سے متصل حکیم سعید شہید گراؤنڈ میں دونوں پارٹیوں نے کیمپ لگا دیے دونوں نے اعلانات شروع کردیے اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یا جس مقصد کے لیے دونوں نے ایک غیر متعلقہ علاقے میں سیاسی جلسے کا اعلان کیا تھا۔ بظاہر یہ جنگ ایم کیو ایم کے ٹکڑوں میں بٹ جانے کے بعد کراچی پر قبضے کے لیے دونوں پارٹیوں کے عزائم اور کوششوں کے نتیجے میں صف آرائی کا نتیجہ ہے۔ لیکن پیر کے واقعے نے اہل کراچی کو ایک بار پھر آنے والے خطرات سے آگاہ کردیا ہے۔ یہ دونوں گروپ جس انداز میں ایک دوسرے سے لڑے ہیں ۔ تین کیمپ ، دو گاڑیاں اور درجنوں موٹر سائیکلیں نذر آتش کی گئیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہی کسی طرح اسمبلیوں میں پہنچ گئے تو یہی منظر اسمبلیوں میں بھی نظر آئے گا۔ ابھی یہ بھی یقینی امر نہیں ہے کہ ایم کیو ایم ختم ہوگئی ہے یا مہاجر کارڈ گھس کر ختم ہوگیا ہے۔ فاروق ستار، عامر خان، مصطفی کمال، انیس قائم خانی، ڈاکٹر خالد مقبول اور دیگر رہنما سوائے مہاجر کارڈ کے اور کوئی کارڈ استعمال ہی نہیں کررہے ۔ 5 مئی کے جلسے میں ایک جھلک اس پالیسی کی سامنے آئی جس کے مطابق مہاجروں کی بقاء کا سوال اٹھایا گیا اور مشترکہ جلسہ کیا گیا تھا ۔ ہم نے ان ہی کالموں میں پہلے بھی نشاندہی کی تھی کہ پہلے دوسرے گروپوں کا ہوا دکھایا جائے گا۔ پھر مہاجر اتحاد کی کوئی تحریک چلے گی۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے جھگڑے سے بھی متحدہ قومی موومنٹ کے گروپ فائدہ اٹھائیں گے۔ وزیر داخلہ انور سیال رات گئے گلشن اقبال پہنچ گئے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ فی الحال تمام لوگ وہاں سے چلے جائیں اور یہ سب بالآخر چلے تو گئے لیکن جس نے بھی ایک سیاسی پارٹی کو سیاسی جلسے کے لیے یہ جگہ دی تھی وہ اتھارٹی کہاں ہے؟ اس کی جانب سے آگے بڑھ کر کہا جانا چاہیے تھا کہ اس جگہ پر جلسے کی اجازت ہم نے دی ہے اور جس پارٹی کو دی ہے اس کا نام لیا جاتا۔لیکن اب معاملات اتنے گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں ہوسکا کہ پیپلز پارٹی کے نام اجاز ت نامہ اس تنازعے سے قبل جاری ہوا تھا یا تنازع ہونے کے بعد جاری کردیا۔ سرکار ان کی، کاغذ ان کے، کمشنر ان کا، جو چاہے چھاپ لیں۔ اطلاع یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو جلسے کا اجازت نامہ مل گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس مقام کا انتخاب کیوں اور کس نے کیا اس کی وجہ سے دو روز سے شہریوں کی آمد و رفت میں خلل پڑ رہا تھا اور جو تنازع سامنے آگیا تھا اس سے کسی بھی وقت ہنگامے کا خدشہ تھا۔ بہرحال مجموعی طور پر ایک جلسے کے لیے اس قدر ہنگامہ آرائی کسی طور مناسب نہیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنے عزائم یا مستقبل کا نقشہ عوام کے سامنے پیش کردیا ہے۔ دونوں میں معمولی باتوں پر کسی سے گفتگو اور دلائل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں ۔ پیپلز پارٹی تو حکمران ہے اسے دلیل کی کیا ضرورت اور پی ٹی آئی نے تصور کرلیا ہے کہ اب کراچی کی فاتح وہ ہوگی۔ ان دونوں گروہوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی فتح کرنے کی چیز نہیں ہے جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ہوتا ہے۔ یہ دلوں کو جیتنے کے بجائے قبضے کی جنگ اور طاقت کا استعمال کررہے ہیں ۔ اس شہر کے لیے بجلی، شناختی کارڈ کے حصول اور صاف پانی، بلدیاتی امور ، صحت، تعلیم، قرآن کا فروغ اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں میں مثبت سرگرمیوں کا فروغ اگر کسی نے کیا ہے تو وہ تنہا جماعت اسلامی ہے۔ مسائل کے حل کے لیے تو جماعت اسلامی ہے اور جلسوں اور سیٹوں پر قبضے کے لیے یہ پارٹیاں اپنا حق جتا رہی ہیں ۔ اگر کراچی کی نمائندگی کا حق ہے تو وہ ایم کیو ایم کی موجودگی میں بھی جماعت اسلامی کا حق تھی اور اب بھی وہی اس نمائندگی کی صحیح حق دار ہے۔ کراچی میں قبضے کی جنگ چھیڑ کر بلاوجہ یہاں کا امن خراب نہ کیا جائے۔ جتنا بھی ہنگامہ ہوا ہے 12مئی کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے جلسے سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے اور ممکن ہے پی ٹی آئی بھی جلسہ اس مقام پر نہ کرے لیکن ابھی ایک اور جلسہ 12مئی کو منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور وہ پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہ ہے۔ منظور پشتین کے مطالبات اور پوری تحریک پشتونوں کے حقوق کے حوالے سے ۔ کراچی میں لاکھوں پختون آباد ہیں اس حوالے سے جب جلسہ کراچی میں ہوگا اور پشتون انداز میں ہی ہوگا تو پھر اس کا خوف مہاجروں کے ذہنوں پر یہ دباؤ ڈالے گا کہ اگر یہ لسانی گروہ اتنی بڑی طاقت بن رہا ہے تو پھر ہمارا کیا ہوگا۔ اور ایک بار پھر اتحاد کی بات۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 12مئی ہی کیوں ؟ وہ کون سی قوت ہے جو 12مئی 2007ء کی ہولناک یادوں کو بھی لوگوں کے ذہن سے محو کردینا چاہتی ہے۔ کیا یہ وہی قوت ہے جس نے 16دسمبر کے سقوط ڈھاکا کے مقابلے میں آرمی پبلک اسکول کو یادگار بنا دیا ہے۔ جب سے پی ٹی آئی اور پی پی پی میں تصادم ہوا ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کی تاریخ قریب آرہی ہے کراچی میں ایک خوف کی فضا واپس آرہی ہے اگر اس کشیدہ صورت حال میں کہیں سے کوئی پٹاخہ بھی پھینک دیا گیا تو لوگ واقعی 12مئی 2007ء کو بھی بھول جائیں گے۔آخری اطلاعات کے مطابق اب دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی حکیم سعید گراؤنڈ میں جلسہ نہیں کرے گا۔ بلاول زرداری کے کہنے پر پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی ہے یہ سمجھداری کا فیصلہ ہے۔ لیکن جو کشیدگی پیدا کی گئی ہے وہ ضرور کوئی گل کھلائے گی۔ ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج معاملے کو ٹھنڈا نہیں ہونے دے گا۔ سرکاری رپورٹ میں یہ بھی ہے کہ فائرنگ علی زیدی کے محافظوں نے کی تھی جن کا تعلق پولیس سے ہے اور ان دونوں نے 35گولیاں چلائی تھیں۔ہنگامے کے دوران میں پولیس کی لاتعلقی کا بھی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے نوٹس لے لیا ہے۔ پہل کس نے کی، اس کا الزام ایک دوسرے پر ڈالا گیا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ دونوں طرف سے ایم کیو ایم کے تجربہ کار کارکنوں کا نام بھی لیا جارہا ہے، یا پھر لیاری گینگ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کام جس نے بھی کیا تجربے کی بنیاد پر ہی کیا ہے۔