بس اب بہت ہوگیا

442

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی آج سے تیس سال پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔ یہاں کے لوگ اس بات پر کل بھی فخر کرتے تھے کہ اسے ’’منی پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر اور علاقے اور زبان کے لوگ یہاں کل بھی بستے تھے اور آج بھی بستے ہیں۔ کل بھی یہاں محنت کرنے والا بھرپور معاوضہ پاتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ شہر کراچی ایک ماں کی طرح اپنے رہنے والوں کو اپنے دامن میں جگہ دیتا تھا اور روٹی بھی…. اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
درمیان میں تعصب کے زہر نے اس کی فضا کو بہت زہریلا کیا۔ اتنا زہریلا کیا کہ سندھی، پنجابی اور پٹھان کو اس آگ کی نذر کرنے کے ساتھ اپنے ہی مہاجر بھائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جماعت اسلامی تو شروع دن سے نشانہ بنی، ہولناک تشدد کے ساتھ جلی ہوئی لاشیں، بوری بند لاشیں، نوجوانوں کو گھٹنوں کے جوڑوں پر گولی مار کر معذور بنانا ان کا مشغلہ ٹھیرا۔ ہڑتالوں پر ہڑتالیں اور ایسی کہ سو سو لاشیں گرنا جیسے معمول ہوگیا تھا۔ رمضان کے مہینے میں بھی ٹارگٹ کلنگ کرکے خوف کا ماحول بنایا گیا، یہاں تک کہ عید کے دن بھی لوگوں کو لاشیں اُٹھانا پڑتیں تھیں۔ عالم یہ تھا کہ حکومت میں بیٹھی تینوں جماعتیں ایک دوسرے پر قتل و غارت کے الزامات لگاتی تھیں لیکن پتا نہیں کون سی ایلفی…. کون سا صمد بانڈ تھا جو انہیں حکومت کی چھری تلے متحد رکھتا تھا۔ شاید اُس ایلفی اور صمد بانڈ کا نام مفاہمت یا مفادات کی سیاست تھا۔ مفادات اپنے اپنے جو کی ایسی سیاست کو جنم دیتی کہ جس میں کلیم کی جانے والی لاشوں کی گنتی سب سے اہم ہوتی تھی۔ دوسرے نمبر پر خزانے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکا…. بس معاملہ یہ تھا کہ :
تیرا پیشہ ہے سفاکی‘ میرا پیشہ ہے سفاکی
کہ ہم قزاق ہیں دونوں تُو وفاقی میں صوبائی
یہ علیحدگی کی دھمکی دیتے وہ آپریشن کی۔ لیکن معاملہ وہیں اَٹکا رہتا اور عوام کا چڑیوں کی طرح شکار جاری رہتا۔ رحمن ملک نائن زیرو پر مفاہمت کی بین بجاتے کبھی دہشت گردی کے ناگ کو ٹوکری میں بند کرنے میں کامیابی ہوتی اور کبھی نہیں لیکن معاملہ وہیں رہتا۔ لمحوں میں دسیوں بیسوں خاندانوں کو بے آسرا کردیا جاتا کہ جوانوں کو لاشوں میں تبدیل کرنا جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ٹی وی پر آکر ایک دوسرے کے ڈیتھ اسکواڈ کا انکشاف کیا جاتا لیکن سیکڑوں معصوموں کے قاتلوں کو حفاظت کی ایسی چھتری میسر تھی کہ اُن کا بال بیکا نہ ہوتا تھا۔
کیسا عجیب تھا کہ الطاف حسین جناح پور کا خالق ’’را‘‘ کا ایجنٹ انڈیا کو مہاجروں کی مدد کے لیے پکارنے والا برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ فخریہ تصاویر مگر وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں میں مستقل اور مسلسل حصہ داری جو آج تک جاری و ساری ہے ساتھ ساتھ آہ و زاری و مظلومیت کی میڈیا پر بھرپور…. ایک وقت آیا کہ الطاف حسین پر منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کے کیس کی تحقیقات شروع ہوئیں۔ اللہ اللہ کرکے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے برسوں کی تحقیق کے بعد متحدہ کے قائد پر ہاتھ ڈالا، معاملہ گرفتاری تک پہنچا۔ بھائی کا بیان آیا کہ لندن پولیس نے اُن کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان حالات میں انہیں پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت اور ضرورت کا احساس ہوا۔ اعلان ہوا فوری طور پر پاسپورٹ فراہم نہ کیا گیا تو کراچی سمیت کئی شہروں کو بند کردیا جائے۔ گرفتاری لندن میں ہوئی اور کراچی کو بند کردیا گیا۔ بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ اُن کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کیس کے علاوہ منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کراچی میں تشدد پر اُکسانے کے الزامات کی تفتیش کی جارہی ہے لیکن معاملہ کچھ ایسا جادوئی تھا کہ محض تین دن بعد ہی رہا کردیا گیا۔ پتا چلا کہ پاکستان کی حکومت فیصلہ کن کارروائی پر اثر انداز ہوئی ہے۔ کتنی اور کیسے ہوئی؟؟ اس کا راز تو جب کھلا جب سعد رفیق نے احسان جتایا۔
خیر کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں۔۔۔ آج اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے ہیں۔ کیا اس سے فرق پڑے گا؟؟۔ جو جہاں ہے مزے میں ہے۔ کیا بارہ ستمبر 2012ء میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں سیکڑوں مزدوروں کو زندہ جلانے والے آزاد نہیں گھوم رہے، بارہ مئی کے بے گناہوں کے قاتل خود اپنی مظلومیت کا رونا نہیں رو رہے؟؟۔ حقوق کے خواب دکھانے اور آرزویں جگانے والے اپنی زندگیوں میں تو ہر خواب اور آرزو کو مکمل کرتے رہے لیکن اہل کراچی سب کچھ چھوڑ کر صرف اس کا خواب دیکھتے رہے کہ امن ہوجائے، روز روز کی ٹارگٹ کلنگ بند ہو، زندگیوں میں سکون ہو۔ کیا یہ کوئی بڑی خواہش تھی؟؟ لیکن مظلوموں کے ساتھی انہیں حق دلانا تو دور کی بات ہے ان کی پہلے جیسی امن وسکون کی آرزو بھی پوری نہ کرسکے، ان کی اپنی آرزو آج بھی وہی ہے۔ مظلوم کہلانے کی، بھئی اگر کچھ نہیں کرسکے اور نہیں کرسکتے تو کیوں اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہو؟؟۔
بہ زبان فیض:
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
آرزوؤں کی جوت جگاتے جگاتے وہ تیس سال اقتدار کی راہ داریوں میں گزار گئے۔ اور اب بھی گزارنے کی آرزو ہے۔ اگرچہ ان کی جماعت پاکستان، لندن، پی آئی بی، بہادر آباد اور پی ایس پی میں تقسیم در تقسیم ہوگئی اور اب بھی مزید ٹیسوری وغیرہ میں تقسیم کا امکان ہے۔ لیکن آرزو باقی ہے۔ اقتدار کا نشہ، دولت کا نشہ، ناموری اور شہرت کا نشہ۔ کیا کراچی کے عوام پھر اس نشے کی بھینٹ چڑھیں گے؟ یا چڑھائے جائیں گے؟؟۔ ہرگز نہیں اب کراچی کے عوام لیاقت آباد کی سڑکوں پر نکل کر یہی کہہ رہے ہیں بس اب بہت ہوگیا یہ سب ہم کو منظور نہیں!!۔