کیا یہ فرینڈلی حملہ تھا؟

330

مسلم لیگ حکومت کے بھولے بھالے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو گولی مارکر زخمی کردیا گیا۔ اتوار کو اس خبر کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر یہ ٹکربھی نظر آنے لگے کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے کی خبر سے اطمینان ہوا۔ مگر دوسرے ہی لمحے یہ بھی خیال آیا کہ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل اور نئے انتخابات کی تیاریوں کی بازگشت میں کس نے اس ماحول کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے؟۔ بعض افراد کو قابل اعتراض گمان یہ بھی ہوا کہ یہ ’’فرینڈلی اٹیک‘‘ تو نہیں؟ مگر دوسرے ہی لمحے بہت سے سوالات دماغ میں اچھلنے لگے۔ ساتھ ہی احسن اقبال کی جمعہ کو قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر بھی یاد آنے لگی۔ اپنے خطاب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جہاد کا تعین کرنا ریاست کا حق ہے اور سوشل میڈیا پر فتوے جاری کرنے والوں کے خلاف سائبر کرائم کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہر محلے اور مسجد سے فتویٰ جاری ہونے سے ملک میدان جنگ بن جائے گا اور اب وقت آ گیا ہے کہ داخلی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے رجحانات کی بیخ کنی کی جائے۔ یہ تقریر احسن اقبال نے ایک ایسے وقت میں کی جب الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری کے دوران مبینہ طور پر ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی پر سوشل میڈیا پر بعض گروہوں کی طرف سے حکومت کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترمیم انتخابات کے دوران اْمیدواروں کے حلف نامے پر اثر انداز ہوئی تھی اور اپوزیشن سمیت متعدد مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس جانب توجہ مبذول کروانے کے بعد اس مسئلے کو ترمیم کے ذریعے حل کر لیا گیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ احسن اقبال کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا پڑا یا انہیں کسی جانب سے مجبور کیا گیا ہو کہ وہ سوشل میڈیا پر جاری مہم کو روکنے کے لیے اپنے ردعمل کا اظہار کریں۔ قومی اسمبلی سے خطاب میں احسن اقبال نے کہا تھا کہ: ’یہ نہیں ہو سکتا کہ سوشل میڈیا پر جس کا جو دل چاہے فتوے دے، آئین اور قانون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔‘
احسن اقبال نے کہا کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے پر انگلی اٹھائے جب کہ مذہبی جذبات پر سیاست کرنا گھناؤنا جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ: ’کون کافر کون مسلمان یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنا ہے۔ ہمیں اللہ کا کام اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ اسی طرح ہم نے سزا کا نظام فتوے کی صورت میں دے دیا ہے۔ کسی مسلمان کا قتل واجب ہونا یا نہ ہونا تعزیرات پاکستان اور پاکستان کے قانون کے تحت ہو سکتا ہے۔ ’کسی شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے شہری کے بارے میں قتل کا فتوی جاری کرے‘۔ عام طور پر احسن اقبال حساس موضوعات پر گفتگو نہیں کیا کرتے اس لیے ان کی اس تقریر پر بعض شخصیات حیران بھی تھیں۔
عموماً ہائی پروفائل کیسز میں اس مفروضے پر تحقیقات کرنے کا تصور بھی نہیں ہے کہ یہ متاثرہ پارٹی کا پری پلان منصوبہ ہوسکتا ہے۔ احسن اقبال ضیاء الحق حکومت کی نامور شخصیت آپا نثار فاطمہ کے بیٹے ہیں۔ وہ بچپن میں نعتیں بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ احسن اقبال بڑے ہوکر اسی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلیں گے جو سابق صدر ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے میاں نواز شریف نے بنائی ہے۔ احسن اقبال کی والدہ آپا نثار کی وجہ شہرت مذہبی دانشور اور خدمت انسانیت کے حوالے سے تھی۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیوں کرایا گیا اور اس کے پیچھے کون عناصر یا قوتیں ہیں اس بات کا فوری تعین کرنا مشکل ہورہا ہے لیکن ناممکن نہیں کیوں کہ وزیر داخلہ پر گولی چلانے والے ملزم کو موقع سے محافظوں نے پکڑ لیا ہے۔
اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر ناروال کی طرف سے خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملزم کا تعلق تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے ہے۔ خط میں بتایا گیا کہ ملزم کا نام عابد حسین ولد محمد حسین ہے جو ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں ویرام سے تعلق رکھتا ہے، اور ڈی سی نارووال کے مطابق ملزم نے اپنا تعلق تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے ظاہر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس نے ختمِ نبوت سے متعلق متنازع ترامیم کے معاملے پر وزیرِ داخلہ کو نشانہ بنایا۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) نارووال عمران کشور نے بتایا تھا کہ ملزم کے پاس 30 بور کا پستول تھا جس سے اس نے وزیرِ داخلہ پر فائرنگ کی جبکہ اس کی موٹر سائیکل بھی قبضے میں لی گئی۔ ملزم کے بیان پر یقین کرلینا بھی درست نہیں ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ وہ کسی دباؤ میں آکر یہ بیان دیا ہو۔ لیکن یقیناًآنے والے دنوں میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ: ’’ملزم نے کس کے حکم پر یہ خطرناک قدم اٹھایا تھا اور اسے کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے‘‘۔ لیکن یہ بات نگراں حکومت میں سامنے آسکتی ہے۔
جامعہ کراچی کے پروفیسر اسامہ شفیق کا کہنا ہے کہ: ’’وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی پشت پر خلائی مخلوق ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ اب مسلم لیگ نواز کے پاس احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق ہی فعال رہنما کے طور پر رہ گئے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ احسن اقبال کا یہ بیان بھی اس حملے کا سبب ہوسکتا ہے کہ: ’’مجھے نااہل کرنا ہے تو کردیں لیکن اس طرح یہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
میرا خیال یہ ہے کہ احسن اقبال پر حملے کے پیچھے مسلم لیگ کو مظلوم بناکر آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ احسن اقبال کی سیکورٹی کے عملے کی موجودگی کے باوجود ملزم گاڑی کے قریب کس طرح پہنچ گیااور گولی چلانے میں کامیاب ہوا؟۔ کیا سیکورٹی افسران و اہل کار اسے گولی چلانے سے قبل پکڑ نہیں سکتے تھے؟ یقیناًپولیس اہل کاروں سے کوئی غفلت ہوئی ہوگی۔ ملزم جس آسانی سے وزیر داخلہ کی گاڑی کے قریب پہنچا اور ایک گولی چلائی اس سے یہ شبہ بھی ہوتا ہے کہ حملے کے سازشی عناصر نے اسے ایک ہی گولی چلانے کا حکم دیا ہوگا!۔ یہ بات تو مزید تحقیقات ہی سے واضح ہوسکے گی۔ بہرحال ہمیشہ کی طرح ایسے واقعات کے بعد وزراء، سیاست دانوں اور دیگر اہم شخصیات کی سیکورٹی بڑھادی جاتی ہے اسی طرح اب بھی یہی ہوگا۔ اس طرح عدالت عظمٰی کے غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی واپس لینے کے حکم پر بھی نظر ثانی ہوسکتی ہے۔ احسن اقبال پر حملہ ان کی وزارت اور صوبائی پولیس کی لوگوں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے دعووں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہے عام انتخاب کے قریب آخر کیوں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے؟ جب ایسے واقعات مزید بڑھتے ہیں تو انتخابات ملتوی کیے جانے کی باتیں زور پکڑنے لگتی ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ رواں حکومت ختم ہونے اور نگراں حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کی صورت حال مزید بگڑے گی۔ خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں خود ہی جنرل الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کردیں گی جسے صدر مملکت منظور کرکے تاریخ میں توسیع کا اعلان کردیں گے۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں اسی طرح ایک بار انتخابات کا انعقاد ملتوی کردیا گیا تھا۔