رمضان سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم

355

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رمضان المبارک میں ٹی وی چینلز پر نیلام گھر اور سرکس جیسے پروگرامز پر پابندی لگا دی ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے ضابطۂ اخلاق عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران میں یہ حکم دیا انہوں نے ریمارکس دیے کہ کوئی چینل رمضان میں اذان نشر نہیں کرتا ان اوقات میں ناچ گانا اور اشتہارات چلاتے ہیں پی ٹی وی بھی یہی کرتا ہے ایسے ہی چلنا ہے تو پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوریہ کا لفظ ہٹا دیں ۔انہوں نے حکم دیا کہ ہر چینل پر5 دو قت کی اذان نشر کرنالازمی ہے ۔ اسلام کے ساتھ تمسخر کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے اسلامی عقائد اور تشخص کا تحفظ ریاست کا فرض ہے ۔ انہوں نے پیمرا سے ضابطۂ اخلاق پر عملدرآمد کی رپورٹ بھی طلب کر لی ۔ جسٹس شوکت عزیز اس سے قبل بھی مسلمانوں کے عقائد اور ختم نبوت کے حوالے سے جرأتمندانہ موقف اختیار کر چکے ہیں ۔ رمضان المبارک میں ٹی وی نشریات ، ان میں اچھل کود الگ، نیلام گھر قسم کے پروگرام اور عوام کو لالچی بنانے کے اقدامات کے علاوہ نہایت بے ہودہ اداکاری کرنے والی خواتین کو رمضان نشریات میں دین پر پروگرام کی میز بان یا شریک میز بانی کی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں ۔ بعضوں کے تو رمضان نشریات کے اشتہارات کا انداز بھی بے ہودہ ہے ۔ اس کا سہرا تو پا کستان کے سب سے بڑے اخبار اور سب سے پہلے نجی ٹی وی چینل کے سر ہے کہ اس نے زیبا بختیار سے یہ سلسلہ شروع کرایا تھا ۔اور عامر لیاقت کی اچھل کود بھی اسی چینل سے شروع ہوئی تھی ۔ اگرچہ سنجیدگی سے عبادت کرنے والے لوگ رمضان میں ٹی وی سے دور ہی رہتے ہیں لیکن اگر کسی وجہ سے خبروں کے لیے یا کسی بچے کی وجہ سے ٹی وی کھلا رہ جائے تو سوائے بے ہودگی کے اور کسی چیز پر نظر نہیں پڑتی تھی ۔ خدا کرے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر پوری طرح عمل کیا جائے اور اسلامی پروگراموں سے اداکاراؤں کو ہٹانے کا فیصلہ بھی ہو جائے ۔ جسٹس شوکت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ پی ٹی وی بھی اسی طرح چل رہا ہے اگر ایسا ہے تو پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوریہ کا لفظ ہٹا دیں ۔ جسٹس شوکت صاحب یہ کیا غضب کیا۔ اس ملک میں ایک دو نہیں ہزاروں ایسی بد روحیں موجود ہیں جو اس ملک کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا چاہتی ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف بھی یہ کوشش کر چکے ہیں ۔جنرل ایوب بھی یہی کرنے چلے تھے۔ ایسے کسی بھی کام کو روکنے کی ضرورت ہے ۔بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عوامی دباؤ بھی بہت ضروری ہے ۔ جہاں کہیں ایسا کوئی پروگرام چلے عوام فوری طور پر پیمرا کو اطلاع کریں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں ۔ ہر کام عدالتیں نہیں کر سکتیں ۔