فرشتے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وہ نورانی اور معزز مخلوق ہیں جو احکام الٰہی کی تعمیل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچاتے ہیں۔ عام انسان اس نورانی مخلوق کی دید سے محروم رہتے ہیں۔ کچھ کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں۔ وہ فرشتوں کا ذکر مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ تصور گمراہی پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔ حضرت عزرائیل ؑ ، حضرت میکائیل ؑ ، حضرت اسرافیل ؑ اور حضرت جبرائیل ؑ ۔ مردود زمانہ مرزا غلام احمد قادیانی پر بھی فرشتے اترتے تھے۔ مرزا قادیانی کے سب سے مشہور فرشتے کا نام ’’ٹیچی‘‘ ہے اس کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’اس کے بعد ایک اور شخص آیا جو الٰہی بخش کی طرح ہے مگر انسان نہیں فرشتہ معلوم ہوتا ہے اس نے دونوں ہاتھ روپوں کے بھر کر میری جھولی میں ڈال دیے ہیں تو وہ اس قدر ہوگئے ہیں کہ میں ان کو گن نہیں سکتا ہوں۔ پھر میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا میرا کوئی نام نہیں۔ دوبارہ دریافت کرنے پر کہا کہ میرا نام ہے ’’ٹیچی‘‘۔ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات طبع دوم صفحہ نمبر 526 از مرزا قادیانی) آپ نے ملاحظہ فرمایا ٹیچی عجیب فرشتہ ہے جو جھوٹ بھی بولتا ہے۔ پہلے کہا میرا کوئی نام نہیں پھر دوبارہ دریافت کرنے پر کہا میرا نام ’’ٹیچی‘‘ ہے۔ مرزا کے ایک فرشتے کا نام ’’خیراتی‘‘ بھی ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں ’’اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہوگئے جن میں سے ایک کا نام خیراتی تھا‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات طبع چہارم صفحہ نمبر 23از مرزا قادیانی) مرزا نے ایک فرشتے کو ’’مٹھن لال‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے کہتے ہیں ’’ملائک طرح طرح کی تمثیلات اختیار کرلیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات طبع چہارم صفحہ نمبر 474 از مرزا قادیانی)۔ 4۔ ’’درشنی‘‘ بھی ایک فرشتے کا نام ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے ’’ایک فرشتے کو میں نے 20برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔ صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں اس نے کہا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 69از مرزا قادیانی) آپ نے ملاحظہ کیا کہاں اسلام میں فرشتوں کا وہ نورانی، ارفع اور اعلیٰ تصور، کہاں مرزا قادیانی کے یہ نام نہاد فرشتے۔ سچ ہی کہا جاتا ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔
اللہ کی آخری کتاب میں فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے، فرشتوں کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ فرشتے تمام عالم کے نظم ونسق میں دخل رکھتے ہیں۔ قیامت کے روز جب تمام مادی رشتے اور تعلق ٹوٹ جائیں گے۔ غیر معمولی حالات وواقعات پیش آئیں گے اس وقت فرشتے ہی کام کریں گے۔ فرشتوں کا ذکر آئے اور بیت المعمور کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ بیت المعمور ساتویں عرش پر موجود فرشتوں کا قبلہ ہے۔ فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں۔ یہ عرش الٰہی کے عین نیچے ہے۔ بیت المعمور کی عظمت آسمان میں بیت اللہ کی ہے۔ بیت المعمور میں ہر دن 70ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں پھر کبھی ان کا نمبر نہیں آتا۔
عام گفتگو میں فرشتے معصومیت کا استعارہ ہیں۔ معصومیت بے ساختہ ہنسی سے ملتی ہے تو بچوں کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ بچے زندگی کے اجلے پن اور معصومیت کا انعام ہیں دنیا بھر میں اٹھے حشر نے جنہیں خاک وخون میں غلطاں کردیا ہے اور اس پر کوئی شرمندہ بھی نہیں۔ عراق پر جن دنوں پابندی لگائی گئی تھی پانچ لاکھ سے زاید ننھے فرشتے موت کے منہ میں چلے گئے۔ شام میں کیمیائی ہتھیاروں، زہریلی گیسوں اور دیگر مہلک اسلحے کا سب سے بڑا نشانہ بچے ہیں۔ فرشتوں جیسے بچوں کا ذکر ہو تو وہ شامی فرشتہ ایلان کرد یاد آجاتا ہے جو ترکی کے ساحل پر آکر سوگیا تھا۔ فرشتوں کے ذکر پر ذہن میں قندوز کے وہ فرشتے بھی اترنے لگتے ہیں جنہیں فرشتے اپنے ساتھ آسمانوں پر لے گئے اور پیچھے روتی ہوئی مائیں رہ گئیں۔ اقبال نے کہا تھا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اقبال کا اشارہ غزوہ بدر کی جانب ہے جس میں عالی مرتبت محمد کریمؐ اور صحابہ کرام کی نصرت کے لیے فرشتے آسمانوں سے اتارے گئے تھے۔ فرشتے انسانوں کی مدد کے حوالے سے ایک مثبت اشارہ ہیں لیکن پاکستانی سیاست مرزا اسد اللہ خان غالب سے متاثر ہے جنہوں نے فرشتوں کے باب میں رخ اور لہجہ ہی بدل دیا اور ان کے لکھے جانے پر ناحق پکڑے جانے کا شکوہ کیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں فرشتے ایک ایسی منفی مخلوق ہیں جو عوامی خواہشات کے درپے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ جو انتخابات میں نہ صرف بڑی تعداد میں ووٹ ڈالتے ہیں بلکہ نتائج بھی بدل دیتے ہیں۔ فرشتوں سے متصل اگر کسی مخلوق کا ذکر کیا جاسکتا ہے تو وہ حوریں ہیں لیکن آج کل چوں کہ ہم سیکولرازم کی جانب تیزی سے گامزن ہیں لہٰذ ا فرشتوں کی جگہ اب خلائی مخلوق نے لے لی ہے۔ خلائی مخلوق ویسے تو اساطیری کردار ہیں لیکن سرد جنگ کے زمانے میں لوگوں نے جب اڑن طشتریوں کا مشاہدہ کیا تو خلائی مخلوق بھی زیر بحث آگئی جنہیں ان کی ماؤں نے نہ جانے کیسا دودھ پلایا ہے کہ پتلے پتلے ہاتھ پیر، لمبوترے گنجے سر اور حلقوں سے باہر نکلی ہوئی آنکھوں کے علاوہ ان کی کوئی اور تجسیم ہی نہ ہوسکی۔ خلائی مخلوق سے مراد حساس ادارے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ براہ راست جن کا نام لینے کی کسی میں ہمت نہیں۔
پاکستان میں خلائی مخلوق کو اڑن طشتریوں سے سیاست میں گھسیٹ لانے کا سہرا میاں نواز شریف کے سر ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’ہمارا مقابلہ پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے۔‘‘ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس پر ٹکڑا لگایا کہ: ’’انتخابات نگراں حکومت نہیں بلکہ خلائی مخلوق مخلوق کروائے گی لیکن ہم پھر بھی حصہ لیں گے‘‘۔ آج کل چوں کہ سب کو آئین اور قانون کا دورہ پڑا ہوا ہے لہٰذا وزیر اعظم کے اس بیان پر الیکشن کمیشن جامے سے باہر نکل آیا اور کہا کہ: ’’انتخابات کوئی خلائی مخلوق نہیں کروا رہی۔ یہ بیان آئین کی روح اور الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ کے خلاف ہے‘‘۔ خلائی مخلوق پر دلچسپ تبصرہ زرداری صاحب نے کیا ہے انہوں نے کہا کہ: ’’خلائی مخلوق کے بارے میں پہلے میاں صاحب بتائیں کیوں کہ وہ نہ صرف ان کو استعمال کرتے رہے ہیں بلکہ ان کے خلائی مخلوق کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رہے ہیں‘‘۔ خلائی مخلوق کا تذکرہ جنرل پرویز مشرف اور چودھری شجاعت بھی اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں۔
فرشتے اور خلائی مخلوق سازشوں کا استعارہ ہیں۔ وہ سازشیں جو چھانگا مانگا میں ہوں یا اداروں کے بند کمروں میں ان سازشوں نے زندگی حرام کردی ہے۔ اس ملک کی اندھی سیاست پہلے ہی کیا کم ظالم تھی کہ اس کو مزید فتنہ انگیز کیا جارہا ہے۔ نوازشریف جب بھی اقتدار میں ہوتے ہیں سب سے زیادہ طاقتور دکھائی دیتے ہیں لیکن پھر سب سے زیادہ کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ پہلے غلام اسحاق خان انہیں بلندیوں سے زمین پر گھسیٹ لائے پھر جنرل پرویز مشرف فضیلت کے اس درجے پر فائز ہوئے اور اب عزت مآب چیف جسٹس صاحب۔ ستر برس سے جاری سازشوں اور اتھل پتھل کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہاں کسی کو کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ اب یہاں کوئی محترم نہیں رہا۔ کوئی شخصیت نہ کوئی ادارہ۔ جو آیا جس کا داؤ چلا اس نے دھوکا دیا، اعتبار کا خون کیا، ہر امید اور ہر اُمنگ کو اذیت بنا دیا اور پھر بد بختوں میں شمار ہوکر راندہ درگاہ ہوگیا۔ وہ سیاست دان ہوں، فوجی جرنیل ہوں یا پھر فرشتے اور خلائی مخلوق۔