مریض کی عیادت

743

ڈاکٹر خالد غزنوی

گزشتہ سے پیوستہ)
اسلام میں بیماریوں کے علاج کا اصول
حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے مسلمان تھے۔ ان کے گھر والے بت پرست ہی نہیں بلکہ بت فروش تھے۔ ان کے والد گرامی سب سے بڑے بت خانہ کے پروہت تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے اپنے ربّ کی صفات گنوائیں۔
ترجمہ:۔ میرا ربّ وہ ہے جس نے مجھے تخلیق کیا اور وہ مجھے ہدایت دیتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ اور وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا کی راہ دکھلاتا ہے۔ وہ سب کو مارے گا تو پھر زندہ کرے گا۔ اور میں اس سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ فیصلے والے دن میرے گناہوں اور غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے میری بخشش کرے گا۔ (الشعراء: 82,78)
وَاذامرضت فھویشفین
انہوں نے واضح فرمایا کہ بیماریاں میری اپنی غلطی سے ہوتی ہیں۔ اور میرا خدا وہ ہے جو اس آڑے وقت میں مجھے شفا دیتا یا شفا کا راستہ دکھلاتا ہے۔
احادیث میں حضرت ابراہیمؑ ہی سے منسوب ایک واقعہ ملتا ہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ اپنے ربّ سے سوال کیا کہ بیماری کہاں سے آتی ہے؟ تو انہیں جواب ملا کہ میری طرف سے۔
پھر پوچھا کہ اس سے شفا کون دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میں‘‘
حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ جب بیماری تو لاتا اور خود ہی شفا بھی دیتا ہے تو اس عمل میں طبیب کی کیا حیثیت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ طبیب وہ شخص ہے کہ میں جس کے ذریعے شفا ارسال کرتا ہوں۔
اس مسئلے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی توجہ عطا فرمائی ہے۔ حضرت ابی رمثہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اللہ الطبیب (طبیب اللہ خود ہے)
یہی بزرگوار اسی مسئلے پر ایک دوسرے واسطہ سے یوں ارشاد نبویؐ سے مطلع فرماتے ہیں۔
انت الرفیق۔ واللہ الطبیب (مسند احمد)
(تمہارا کام) مریض کو اطمینان دلانا ہے۔ طبیب اللہ خود ہے (مسند احمد)
حضرت اسامہ بن شریکؓ روایت کرتے ہیں کہ طبیب اعظمؐ نے فرمایا
ترجمہ:۔ اے اللہ کے بندو علاج کیا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا ساتھ ہی علاج نہ اتارا ہو۔ اور وہ ایک جس کا علاج نہیں وہ بڑھاپا ہے۔ (احمد، سنن، مستدرک)
یہی بات متعدد دوسرے صحابہ کرام سے بار بار روایت کی گئی ہے۔
حضرت ابی سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کے ساتھ اس کی شفا بھی اتاری نہ گئی ہو۔ یہ بات جس نے سمجھ لی وہ جان گیا اور جس نے نہ سمجھی وہ جاہل رہا۔ لیکن ایک بیماری یعنی موت کی دوا نہیں ہے۔ (ابودائود)
یہ ایک اہم حقیقت کا اظہار ہے۔ لاعلاج کوئی بیماری نہیں۔ علاج کی تلاش میں جائو گے تو مایوسی نہ ہوگی۔ یہ ارشاد گرامی انسانی جدوجہد اور بیماریوں کے علاج کو تلاش کرنے میں مہمیز کا کام دیتا ہے۔
حضرت ام الدرداءؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نے بیماریاں نازل فرماتے ہوئے ان کا علاج بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے علاج کرتے رہنا چاہیے۔ البتہ حرام چیزوں سے علاج نہ کیا جائے۔ (طبرانی)
طارق بن سویدؓ الخصرمی اور دوسرے اطبا نے علاج کے لیے انگور کی شراب کے بارے میں دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لاشفاء فی الحرام (حرام چیزوں میں شفا نہیں ہوتی)
حرام جانوروں کے گوشت، خون، شراب، منشیات اور زہریلی ادویہ میں شفا نہیں ہے۔ چند سال پہلے تک ڈاکٹر نمونیہ کے مریضوں کو برانڈی پلاتے تھے۔ مگر اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے برانڈی جسم کی قوت مدافعت کو ختم کرکے مریض کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے اب غیر مسلم ڈاکٹر بھی برانڈی کو ترک کرچکے ہیں۔ سور کے لبلبہ سے بننے والی انسولین ذیابیطس کے مریضوں کے لیے شفا کا باعث نہ بن سکی اور اب متروک ہوگئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ علاج انسان کے مقدر کا حصہ ہے۔ اور اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد فائدہ ہوتا ہے۔ (ابونعیم۔ طبرانی)
(ختم شد)