بلند فشار ِ خون

383

ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر
پی ایچ ڈی ( مائیکرو بیالوجی )

نسانی دل کے دھڑکنے کے عمل سے جو خون پورے انسانی جسم میں گردش کرتا ہے اور اسے مطلوبہ توانائی ، غذائیت اور آکسیجن مہیا کر رہا ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہم اپنی روز مرہ کے امور خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہیں ۔
خون انسانی جسم میں گردش کے دوران شریانوں کی دیواروں پر دبائو ڈالتا ہے اور اس دبائو یا ٹکرانے کو بلڈ پریشر کہا جاتا ہے اور دبائو یا ٹکرائو کی یہ شدت اگر بڑھ جائے تو یہ حالت بلند فشارِ خون یا ہائی بلڈ پریشر کہلاتی ہے ۔
بلڈ پریشر یا خون کے دبائو کو ناپنے کے لیے اس کی پیمائش کی جاتی ہے اور اسے ملی میٹرآف مرکری (mm Hg)کے ذریعے ناپا جاتا ہے اور دو عدد میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔ یعنی جب بلڈ پریشر کی پیمائش ہوتی ہے تو اسے120/80(mm Hg) لکھا جاتا ہے ۔
پہلا عدد systolic ہوتا ہے اور یہ وہ سب سے بلند عدد ہوتا ہے جس پر بلڈ پریشر یا خون کا دبائو پہنچا ہوتا ہے جبکہ دوسرا عدد Diastolic کہلاتا ہے جو سب سے نچلی سطح ہوتی ہے جس پر خون کا دبائو پہنچ سکتا ہے ۔ نارمل بلڈ پریشر 120/80 سے نیچے ہوتا ہے ۔ اگر خون کا دبائو کئی ہفتوں تک مسلسل 40/90 یا اس سے زیادہ ہوتو ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہوسکتا ہے ۔
ہائی بلڈ پریشر کے مریض عام طور پر اپنے آپ کو بیمار محسوس نہیں کرتے ہیں لیکن یہ بلند فشار خون دل ، خون کی شر یا نوں یا نسوں ، اور دوسرے جسمانی اعضا کو خراب یا بیمار کر رہا ہوتا ہے جو انسان کی صحت کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہو کر صحت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرتا ہے ۔ ہائی بلڈ پریشر دل کی دھڑکنوں کو بند کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے اور دل کا دورہ اس وقت پڑتا ہے جب دل کو خون پہچانے والی نسیں بند ہو جاتی ہیں یا پھٹ جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر انسانی گردوں کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور یہ گردوںکو خون فراہم کرنے والی شریانوں یا نسوں کو خراب کرکے گردوں کی مختلف بیماریوںکا سبب بنتا ہے ۔ ہائی بلڈ پریشر دماغ کو خون پہنچانے والی نسوں کو بند کرکے فالج کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ جبکہ بلندفشار خون کی وجہ سے پیروں کی خون کی نسیں تنگ ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان میں خون کا بہائو مشکل ہو جاتا ہے اور چلنے پھرنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔
ہائی بلڈ پریشر کی کوئی مخصوس ظاہری علامات نہیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اسے خاموش قاقل (Silent Killer) بھی کہا جاتا ہے ۔ بعض افراد میں کئی عرصے تک بلند فشار خون میں مبتلا رہنے کے باوجود کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں مگر کچھ افراد میں اس کی علامات میں سردرد، آنکھوں میں دھندلاہٹ ، چکر آنا ، قے محسوس ہونا ، سانس کی آمدورفت میں تکلیف اور تھکن محسوس ہوتی ہیں۔ یہ تمام علامات ہائی بلڈ پریشر کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔
اس کے علاوہ وہ افراد جو دیگر مختلف امراض مثلاََ ذیابیطس ، گردوں کے امراض، ہائی کولیسٹرول یا تھائرائیڈ کے امراض میں مبتلا ہیں تو ان میں بھی ہائی بلڈ پریشر کا مرض موجود ہوسکتا ہے ۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر خاندان میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض پہلے سے موجود ہو تو باقاعدگی سے معاینہ کروانا لازمی ہے جس سے انسان مستقبل میں پیش آنے والے سنگین مسائل سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے ۔
ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے متوازن خوراک اور صحت مند سرگرمیاں بہت ضروری ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق جیسے جیسے انسان کا وزن بڑھتا جاتا ہے تو ہائی بلڈ پریشر بھی بڑھتا جاتا ہے جبکہ وزن میں کمی کی وجہ سے بلڈ پریشر بھی اتنا ہی کم ہوتا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ وزن میں کمی کی وجہ سے بلڈ پریشر میں استعمال ہونے والی ادویات کا بھی فائدہ زیادہ ہوسکتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق وزن حد کے حساب سے ہونا زیادہ ضروری ہے ۔ کیونکہ حد سے زیادہ وزن میں کمی بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے ۔ وزن کو نارمل حالت میں رکھنے کے لیے ورزش یا جسمانی سرگرمی ایک لازمی جزو ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے ہفتے میں چار سے پانچ دن تک تقریباََ تین سے ساٹھ منٹ کی ورزش سے بلڈ پریشر 4 سے 9فیصد تک کم ہو سکتا ہے اور ورزش کے ساتھ ایک متوازن اور صحت مند خوراک کو اپنی کھانوں میں شامل رکھنا چاہیے۔ نیشنل ا نسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق ایسی غذائیں جن میں سوڈیم کی شرح کم ہو، ہائی بلڈ پریشر میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ باہر کے کھانوں اور گھر میں فریز کیے گئے کھانوں کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ عرصے تک محفوظ رکھے ہوئے کھانوں میں کاربو ہائیڈ رٹیس (Carbohydrates) اور سوڈیم کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے ۔
غذا میں اناج ، پھلوں ،سبزیوں اور کم چکنائی والے مصنوعات کے ساتھ پوٹاشیم کی حامل خوراک کو شامل رکھنا چاہیے۔ کیلا جس میں سوڈیم کی شرح کم جبکہ پوٹاشیم سے بھر پور غذاہے اور ایک تحقیق کے مطابق دن بھر میں صرف دوسے تین کیلوں کے استعمال سے ہائی بلڈ پریشر کو دس فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔
اس کے علاوہ ٹماٹر جو کہ لائیکو پین (Lycopane) نامی مادے سے بھر پور ہوتا ہے، جو ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے ۔ آ سٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ کی غذا میں 25 ملی گرام لائیکو پین کو شامل کرنے سے ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو دس فیصد تک کم کرسکتے ہیں ۔ کھانے میں نمک کی مقدار کم سے کم استعمال کرنی چاہیے ۔ جبکہ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے دہی اور ڈیر ی کی دیگر مصنوعات کھانے میں استعمال کرنے والے افراد میں بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے ۔ مچھلی ، آلو، پالک اور لوبیا وغیرہ کے استعمال سے بلند فشار خون کو کم کرنے میں معاونت ملتی ہے کیونکہ ان سب میں سوڈیم کی شرح کم ہوتی ہے ۔
کیفین کے حامل مشروبات کے استعمال سے انسانی جسم کا بلڈ پریشر اچانک بڑھ جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر وقت ذہنی دبائو اور ٹینشن میں رہنے والے افراد بھی اس ہائی بلڈ پریشر کی بیماری سے دوچار رہتے ہیں ۔ بعض لوگ اپنے دفتری ا مور میںروزانہ تقریباََ پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے تک مسلسل مصروف رہتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ذہنی دبائو بڑھتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق ہائی بلڈ پریشر کے حامل افراد اگر اٹھارہ سے بیس ہفتوں تک روزانہ 25 سے تیس کلو ریز ڈارک چاکلیٹ کھائیں تو بلڈ پریشر کی سطح بیس فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو افراد کچھ ہفتوں تک مسلسل روزانہ تین سے چار کپ ہر بل چائے کا استعمال کرتے ہیں تو ان کے ہائی بلڈ پریشر میں نمایاں کمی دیکھنے میں آتی ہے ۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے چقندر کاجوس بے حد فائدہ مند ہوتا ہے ۔ اس میں موجود نائٹریٹس چوبیس گھنٹوں میں بلڈپریشر کو کم کر دیتا ہے ۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ہر ہفتے ایک کپ اسٹربیریز یا بلیو بیریز استعمال کرنے سے ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ۔
طبی ماہرین کے مطابق نماز ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے ایک بہترین علاج ہے ۔ تحقیق کے مطابق وضو کے دوران جب چہرہ اور کہنیوں تک ہاتھ پائوں دھوتے ہیں اور سر کامسح کرتے ہیں تو رگوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار نارمل ہو جاتی ہے جس سے انسان سکون محسوس کرتا ہے اور اعصابی نظام پر بے حد اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے دماغ کوآرام ملتا ہے ۔