اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پاکستانی نایاب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پنجابیوں، مہاجروں، سندھیوں، پشتونوں، بلوچوں، فوجیوں اور سویلینز کا ملک ہے۔ پاکستان میں اس پاکستانیت کا کال پڑا ہوا ہے جس کے دائرے میں اسلامی تشخص لسانی اور صوبائی شناخت پر فیصلہ کن فوقیت رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی سے زیادہ پاکستان تو مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں ملتے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں کی پاکستانیت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ ابھی ابھی قائداعظم سے مل کر آئے ہیں یا انہوں نے ابھی ابھی دو قومی نظریے کا جام پیا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں پاکستانیوں کی اکثریت پاکستانیت کی آڑ میں مدتوں سے تعصب تعصب کھیل رہی ہے۔ اس کھیل کو سیاسی جماعتوں نے تقریباً ’’قومی کھیل‘‘ بنادیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بلاول زرداری، ایم کیو ایم اور میاں نواز شریف ہیں۔
بلاول نے چند دن پہلے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ لیاقت آباد میں جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو ’’مستقل قومی مصیبت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ کراچی کو ’’مستقل قومی مصیبت‘‘ سے نجات دلائیں گے۔ اس کے جواب میں ایم کیو ایم پاکستان نے PPP کو ’’پیٹو‘ پگلی پارٹی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ بلاول مہاجروں سے ہمدردی کرنے کے بجائے سانحہ پکا قلعہ کا حساب دیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے کہا کہ بلاول کی جلسہ گاہ کے قلب میں شہدائے اردو کی قبریں ہیں جنہیں پیپلز پارٹی نے اردو دشمنی میں شہید کردیا تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار نے کہا کہ پی پی پی کوٹا سسٹم کی حامی ہے اور وہ دس سال سے کراچی کا استحصال کررہی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ بلاول کے جلسے میں اگر کراچی کے عوام بھی شامل ہوتے تو اچھا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ قارئین یہ بیانات پڑھ کر سمجھ گئے ہوں گے کہ تعصب، تعصب کھیلنے کا مفہوم کیا ہے؟
ہمیں بلاول کے اس خیال سے مکمل اتفاق ہے کہ ایم کیو ایم مستقل قومی مصیبت ہے۔ اسی طرح ہم ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی اس رائے کی بھی تائید کرتے ہیں کہ پی پی پی پیٹو، پگلی پارٹی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ دونوں جماعتیں اس طرح ایک دوسرے کے نام کو چار چاند لگاتی رہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ نے نوٹ فرمایا ہو گا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت کی آڑ میں دراصل ایک دوسرے کی حمایت کررہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی خود کو وفاقی جماعت کہا کرتی تھی اور بے نظیر کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا۔ کہنے کو تو اب بھی پیپلز پارٹی خود کو وفاقی جماعت کہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ تک سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ چناں چہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا طرزِ عمل ایک قوم پرست جماعت سے مختلف نہیں اور ایک قوم پرست جماعت یہ بات پسند کرتی ہے کہ اس کے حریف اس کے صوبائی یا لسانی تشخص کے حوالے سے اسے یاد کریں۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بلاول کے جلسے کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ پیپلز پارٹی کو سندھیوں کی جماعت باور کرانے کے لیے کافی ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنے لسانی تشخص کو بھی آواز دی ہے اور باور کرایا ہے کہ ایم کیو ایم اردو اسپیکنگ ہے اور پیپلز پارٹی نے اردو اور اردو والوں دونوں کو کچلا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے بقول پیپلز پارٹی نے سندھ میں کوٹا سسٹم ایجاد کرکے مہاجروں پر ظلم کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے الزامات بہت بڑے بڑے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اگر پیپلز پارٹی کو اتنا ہی ظالم اور خود کو مہاجروں کا اتنا ہی ہمدرد سمجھتی ہے تو اس نے ایک مہاجر دشمن جماعت کے ساتھ 33 برس میں 9 مرتبہ اقتدار کیوں Share کیا ہے؟ اور اقتدار Share کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو ایک بار بھی یہ بات کیوں یاد نہیں آئی کہ پیپلز پارٹی نے اردو کو کچلا ہے، اور اردو کی بات کرنے والوں کو ’’شہید‘‘ کیا ہے اور سندھ پر کوٹا سسٹم مسلط کرکے مہاجروں کی حق تلفی کی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایم کیو ایم نے جب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹے تو اس نے ’’سندھی مہاجر بھائی بھائی‘‘ کا تاثر تخلیق کیا۔ البتہ اقتدار سے الگ ہوتے ہی اس نے پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ رائے عام کرنے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی ایک سندھی پارٹی اور مہاجروں کی دشمن ہے۔ تسلیم کہ آدمی ایک دو بار دھوکے میں دشمن کے ساتھ اقتدار Shareکرسکتا ہے مگر 9 مرتبہ نہیں۔ اس صورتِ حال سے یہ تسلیم حقیقت عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ ایم کیو ایم کا ’’تعصب‘‘ تک ’’حقیقی‘‘ نہیں بلکہ ’’جعلی‘‘ ہے۔ جس طرح ایم کیو ایم کی دوسری چیزیں جعلی ہیں۔ اس کی قیادت، اس کا نظریہ، اس کے نعرے، اس کی جدوجہد، اس کی سیاست، انسان کی محبت جعلی ہو یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر انسان کی ’’نفرت‘‘ اور اس کا ’’تعصب‘‘ بھی جعلی ہو یہ تماشا ہم نے پاکستان ہی میں دیکھا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے مذکورہ بالا بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اردو بہت عزیز ہے اور کوٹا سسٹم سے انہیں بہت تکلیف ہے۔ ایم کیو ایم کو سیاست کرتے ہوئے 30 سال ہوگئے، وہ اتنے طویل عرصے میں بلدیاتی سطح سے لے کر سینیٹ کی سطح تک کراچی اور حیدر آباد کے عوام کی سو فی صد نمائندگی کرتے رہے ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اردو کے فروغ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ ایم کیو ایم جب وجود میں آئی تھی تو کوٹا سسٹم کوٹا سسٹم کرتی رہتی تھی مگر اب تو دس پندرہ برسوں سے ایم کیو ایم نے کوٹا سسٹم کا نام بھی لینا چھوڑا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما بتائیں کہ انہوں نے 30 برسوں میں اردو اور کوٹا سسٹم کے لیے کتنی ہڑتالیں کیں؟ کتنے جلسے کیے؟ کتنے جلوس نکالے؟ کتنی بوری بند لاشیں ’’ایجاد‘‘ کیں؟ کتنی بھتا خوری کی؟ صوبائی اور قومی اسمبلی میں کتنی قراردادیں پیش کیں؟ کتنے بیانات جاری کیے؟۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کی کارکردگی ایک بہت بڑے صفر کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ اب ایم کیو ایم ایک بار پھر مشکل سے دوچار ہوئی ہے تو اسے اردو بھی یاد آرہی ہے، اردو کے شہدا بھی یاد آرہے ہیں اور کوٹا سسٹم بھی یاد آرہا ہے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کی ہر ممکن مدد کررہی ہے۔ بلاول کو آج ایم کیو ایم مستقل قومی مصیبت نظر آرہی ہے مگر جب پیپلز پارٹی نے 9 بار اسے اقتدار میں شریک کیا تو اسے ایک بار بھی خیال نہیں آیا کہ ایم کیو ایم کیا ہے؟ ایم کیو ایم کی تاریخ کا یہ ایک عجیب پہلو ہے کہ جرنیل ایم کیو ایم کو دہشت گرد بھی قرار دیتے رہے ہیں اور اس کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو وبال بھی کہتی رہی ہے اور اسے اقتدار میں بھرپور شرکت کے مواقعے بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ میاں نواز شریف ایم کیو ایم کو تباہ کن بھی قرار دیتی رہی اور اسے اقتدار کے جھولے میں بھی جھلاتی رہی۔ یہاں تک کہ میاں نواز شریف اب بھی الطاف حسین سے رابطے میں ہیں اور میاں شہباز شریف کو ’’صدیوں‘‘ کے بعد کراچی کا دورہ کرنے کی ’’توفیق‘‘ ہوئی تو انہوں نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ایسی ’’والہانہ‘‘ ملاقاتیں کیں جیسے وہ ان رہنماؤں سے برسوں سے بچھڑے ہوئے تھے۔
یہ کتنی دلچسپ اور اہم بات ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ بات تو صاف نظر آرہی ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے ہدایات لیتے ہیں مگر گزشتہ 25 برس میں انہیں ایک بار بھی یہ حقیقت دکھائی نہ دی کہ الطاف حسین امریکا، برطانیہ اور بھارت کی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ آخر ایک جگہ ان کی نظر بہت تیز اور دوسری جگہ ان کی نظر اتنی کمزور کیوں ہے؟۔
جس طرح سندھ پیپلز پارٹی کو اور کراچی ایم کیو ایم کو جہیز میں نہیں ملا اسی طرح لاہور اور پنجاب بھی میاں صاحب کو جہیز میں عطا نہیں ہوا۔ مگر جس طرح سندھ میں کوئی داخل ہو تو پی پی پی ناراض ہوتی ہے اور کراچی میں کوئی پَر پُرزے نکالے تو ایم کیو ایم برافروختہ ہوتی ہے۔ اس طرح کوئی لاہور اور پنجاب پر اپنا حق جتائے تو میاں صاحب اور ن لیگ لال پیلی ہوتی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے لاہور میں پی ٹی آئی کے حالیہ جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جلسہ لاہور کا تھا مگر اس کے شرکا پشاور کے تھے اور جلسے کا ایجنڈا کسی اور کا تھا۔ کیوں صاحب لاہور کے جلسے میں کراؤڈ پشاور کا کیوں تھا؟۔ پی ٹی آئی کے جلسے میں لاہور یا پنجاب کا کراؤڈ کیوں نہیں آسکتا؟ کیا لاہور یا پنجاب کے لوگوں کے ضمیر اور شعور دونوں کو میاں نواز شریف نے خرید لیا ہے اور یہ بات لازم ہوگئی ہے کہ پی ٹی آئی ہمیشہ صرف پٹھانوں کی جماعت رہے گی؟ بدقسمتی سے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بھی بلاول کے جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ کاش بلاول کے جلسے میں کراچی کے لوگ بھی ہوتے۔ یعنی ایم کیو ایم کے نزدیک ’’اردو اسپیکنگ‘‘ لوگ ان کی ’’رعیت‘‘ ہیں۔ چناں چہ وہ کسی سندھی پارٹی کے جلسے میں کیسے جاسکتے ہیں؟۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ کے لوگوں کو صرف اپنی میراث سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ سندھی کبھی اس کی گرفت سے آزاد نہ ہوں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے توحید پرست قوم کو زبان پرست اور صوبہ پرست بنا ڈالا ہے۔ رہی سہی کسر فرقہ پرستوں اور ملک پرستوں نے پوری کردی ہے۔ نتیجہ یہ کہ زندگی کے اکثر دائروں سے ایک ہی آواز آرہی ہے۔ آئیے تعصب تعصب کھیلتے ہیں۔