چیف جسٹس صاحب 12مئی کو بھی یاد رکھیں

343

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جہاں اور بہت سی تاریخیں اور ایام اہمیت کے حامل ہیں وہیں 12مئی کی بھی ایک یادگار دل دہلا دینے والی تاریخ ہے۔ ہمارے موجودہ چیف جسٹس صاحب آج کل بہت متحرک ہیں۔ عوامی مسائل کے کئی عنوانات پر انہوں نے متعلقہ محکموں اور اداروں سے پوچھ گچھ شروع کی ہوئی ہے، یہاں تک کے بیس پچیس برس پرانا اصغر خان کیس بھی عدلیہ میں زیر سماعت ہے۔ تو پھر ایک ایسے سانحے پر وہ خاموش کیوں ہیں جس کا تعلق براہ راست عدلیہ سے ہے یعنی جس کا تعلق وکلا تحریک سے ہے کہ جب ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے آمریت کے خلاف میدان عمل میں آئے۔ اس سے قبل کی معلوم تاریخ میں حکومتوں کے خلاف عوام کی طرف سے تحریکیں شروع ہوتی تھیں بعد میں وکلا، اساتذہ اور طلبہ عوام کے ساتھ مل کر تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتے تھے۔ 1977میں بھٹو کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کا آغاز ابتدائی طور پر سیاسی جماعتوں نے کیا تھا بعد میں وکلا، اساتذہ، طلبہ اور سول سوسائٹی کے لوگ شریک ہوئے تھے۔ میری مراد 12مئی 2007 کے حوالے سے ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے آمریت کے خلاف حق کی آواز بلند کی اور پھر اس میں وکلا بھی شریک ہو گئے۔ لیکن ٹھیریے اس سے پہلے ایک اور 12 مئی پر بات ہو جائے جو 2004میں آئی تھی۔
2002 میں پرویز مشرف نے جو عام انتخابات کروائے تھے اس میں متحدہ مجلس عمل نے کراچی سے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جب کے اس وقت پورے شہر میں ایم کیو ایم کا تُوتی بولتا تھا۔ ایم کیو ایم کو عوام کے ساتھ ساتھ ریاست کی حمایت بھی حاصل تھی اور اس کی دہشت عروج پر تھی ایم ایم اے کا کراچی سے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے سے ایم کیو ایم سکتہ کی کیفیت میں آ گئی اور اس کے دو اہم لیڈر کراچی سے نسرین جلیل اور حیدرآباد سے آفتاب شیخ شکست کھا گئے۔ اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایم کیو ایم نے کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت یا الطاف حسین نے اپنی شوخ طبیعت اور ایم کیو ایم پر اپنی مضبوط گرفت ظاہر کرنے کے لیے اپنی جماعت کے قومی اسمبلی کے تین ارکان سے استعفا
لے لیا اور بالخصوص ان نشستوں سے استعفا لیا گیا جہاں ایم ایم اے نے بہت زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ چناں چہ 12مئی 2004 کو اس شہر کراچی میں ضمنی انتخاب ہوا۔
متحدہ مجلس عمل نے اس انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا چوں کہ ایم ایم اے کے کارکنان کو دو سال قبل یعنی 2002 کے انتخابی نتائج سے ایک اعتماد حاصل ہو چکا تھا۔ اس لیے بڑے جوش خروش سے مہم کا آغاز کیا گیا ویسے تو ایک مضبوط رائے یہ بھی تھی کہ ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لیا جائے اس لیے کہ ضمنی انتخاب کے نتائج ہمیشہ اسی پارٹی کے حق میں آتے ہیں جو برسراقتدار ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم اقتدار میں تھی ریاستی اور عوامی حمایت دونوں اسے حاصل تھی لیکن اس دن اس کا پلان کچھ اور تھا اس کو معلوم تھا الیکشن تو وہ جیت ہی جائیں گے مگر اس دن تو اس کو اپنے انتقامی جذبات کا مظاہرہ کرنا تھا۔
کراچی یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کہا کہ آج پی پی پی نے بھی ایف سی ایریا کے ٹنکی گراؤنڈ میں جلسہ کیا اور ہر پارٹی جلسہ کررہی ہے یہ وہی ایف سی ایریا ہے جہاں 12مئی 2004 میں ہماری 9لاشیں گری تھیں آج ہر پارٹی لیاقت آباد میں جلسہ کررہی ہے لیکن ایک وقت وہ تھا جب اس شہر میں واحد جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جب ساری سیاسی جماعتیں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ 12مئی 2004 یعنی ضمنی انتخاب والے دن ایم کیو ایم نے ٹارگٹ کرکے جماعت اسلامی کے نو اور جے یو آئی (ایف)کے دو کارکنان کو شہید کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قتل عام کے ذمے داروں کو اس وقت کی حکومت نے گرفتار نہیں کیا کہ چوں کہ ایم کیو ایم کو پرویز مشرف کی مشفقانہ سرپرستی حاصل تھی۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب سے ہمارا مطالبہ ہے کہ 12مئی 2004 کے سانحے پر بھی کوئی جیوڈیشل کمیشن بٹھائیں تاکہ آئندہ اس ملک میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔
اب دوسرے 12مئی 2007 کے حوالے سے بات ہو جائے کہ پاکستان اسٹیل مل کی نج کاری کا کیس عدالت عظمیٰ میں تھا اس کا فیصلہ آنے والا تھا پرویز مشرف صاحب کو کسی ذریعے سے یقین دلا دیا گیا تھا کہ فیصلہ حکومت کے حق میں آرہا ہے، لیکن فیصلہ حکومت کی توقعات کے برعکس آگیا جو آمریت کو بہت شاق گزرا، پرویز مشرف نے سوچا کہ ابھی ایسا فیصلہ آیا ہے آگے چل کر یہ شخص ہمارے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا چیف جسٹس صاحب کو آرمی ہاؤس بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ استعفا دے دیں چیف صاحب نے انکار کردیا استعفے پر اصرار بڑھتا گیا تو دوسری طرف انکار کی شدت بڑھتی گئی۔ بس یہیں سے تحریک کا آغاز ہوگیا پورے ملک میں وکلا سڑکوں پر نکل آئے پوری سول سوسائٹی میدان میں آگئی پھر تمام سیاسی جماعتوں نے آمریت کے خلاف تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ جوں جوں یہ تحریک آگے بڑھتی رہی اس میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان روزآنہ کی بنیاد پر جلوس اور مظاہرے کرنے لگے جو سیاسی جماعتیں اس وقت زیادہ فعال تھیں ان میں جماعت اسلامی، پی پی پی، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، اے این پی نمایاں تھیں ان جماعتوں کے کارکنان وکلا کی تحریک میں بھرپور دلچسپی سے حصہ لے رہے تھے۔
12مئی 2007 کو کراچی کی وکلا تنظیم نے ایک پروگرام بنایا جس کے مہمان خصوصی چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ پورے ملک کی نظریں کراچی کی طرف لگی ہوئی تھیں وکلا بڑے جوش خروش سے تیاریاں کررہے تھے لیکن دوسری طرف پرویز مشرف کی لے پالک ایم کیو ایم جو سندھ حکومت میں اقتدار میں تھی اور آج کے مےئر کراچی وسیم اختر اس وقت سندھ کے وزیر داخلہ تھے نے کچھ دوسرے ہی منصوبے بنا رکھے تھے کہ کسی بھی طرح چیف جسٹس افتخار چودھری کو ائر پورٹ سے باہر نہیں آنے دینا ہے اس دن تمام تھانوں میں پولیس والوں سے بندوقیں لے کر ان کے ہاتھ میں ڈنڈے دے دیے گئے۔ پورے شہر میں ہو کا عالم تھا ایم کیو ایم نے اس دن ایک جلوس بھی نکالا جو ایم اے جناح روڈ پر تھا۔ ٹی وی چینل آج پر حملہ کیا گیا اس دن مختلف سیاسی جماعتوں کے 50سے زاید معصوم لوگوں کا کراچی کی سڑکوں پر نا حق خون بہایا گیا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کو ائر پورٹ سے واپس جانا پڑا اس دن ایم کیو ایم کے کارکنان نے سندھ ہائیکورٹ کے دروازوں پر تالے ڈال دیے بہت سے جج دیوار پھلانگ کر سندھ ہائیکورٹ کی عمارت میں داخل ہوئے سٹی کورٹ میں بھی جنگ و جدل کا منظر غالب رہا اس دن اسلام آباد میں ایک تقریب میں پرویز مشرف نے اپنا مکا لہراتے ہوئے کہا کہ دیکھو اگر تم طاقت سے ٹکراؤ گے تو اسی طرح کا حشر ہوگا جو کراچی میں ہوا ہے۔
حکومت وقت نے تو پچاس سے زاید افراد کے قتل کی کوئی ایف آئی آر کاٹی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی سندھ ہائیکورٹ نے ازخود اس سانحہ کا نوٹس لیا اس کی پہلی سماعت تو ہو گئی لیکن دوسری سماعت میں گواہیاں دلوانے کے بہانے ایم کیو ایم کے لیڈران ہزاروں افراد کو لے کر ہائیکورٹ کی عمارت کے اندر داخل ہو گئے اس طرح ہائیکورٹ کے جج خوف کا شکار ہوئے اور وہ دباؤ میں آگئے پولیس نے بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو نہیں روکا سندھ ہائیکورٹ کے ججوں اور انتظامیہ نے جب یہ دیکھا کہ ہمیں پولیس اور صوبائی حکومت کی طرف سے اپنے تحفظ کے حوالے سے کوئی معاونت ملنے کے آثار نہیں ہیں تو پھر یہ سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔
آخر میں ہماری چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ سندھ ہائیکورٹ کو یہ حکم جاری فرمائیں کہ بارہ مئی کے سانحے کے حوالے سے انہوں نے جس عدالتی کارروائی کا سلسلہ شروع کیا تھا اسے پھر سے شروع کیا جائے اور جو لوگ اس المناک سانحے کے ذمے دار ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔