سانحہ12مئی۔۔۔ میں کس کے ہاتھ پہ ۔۔۔

353

آج کراچی اور پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے ۔ آج ہی کے روز 2007ء میں چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو کراچی آنے سے روکنے کے لیے اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف کے چیلوں نے کراچی کو آگ اور خون کی نذر کر دیا تھا ۔ جو لوگ اس وقت کراچی میں ڈیڑھ سو لوگوں کے قتل کے ذمے دار تھے حکومت میں تھے ، شراکت دار تھے یا چمچے اور فائدے سمیٹنے والے تھے وہ سب اب 12مئی کے سانحے کے نوحہ کناں ہیں ۔ اس وقت کے مشیر داخلہ آج کل میئر کراچی ہیں آج وہ کہتے ہیں ہم کراچی کو اون کرتے ہیں 12 مئی کا سانحہ ان کی سر کردگی میں ہوا تھا ۔ سارے شہر کے راستے ان کے حکم پر بند ہوئے تھے ۔ شپنگ کے وزیر نے کنٹینر فراہم کیے تھے ۔ پوری حکومتی مشینری اس کام پر لگی ہوئی تھی ۔ جنرل پرویز مشرف رات کو مکّے لہرا کر اعلان کر رہے تھے کہ کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوا ہے ۔ اسی جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر کے ساتھ جناب آصف زرداری نے رخصت کیا ۔ سانحے کے ذمے داروں کو پیپلز پارٹی نے اپنا حلیف بنایا حکومت میں شریک کیا اور ان کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے رشوت میں مزید وزارتیں اور رقوم دیں ۔جن لوگوں نے اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا وہ آج تین گروپوں میں تقسیم ہیں ۔ مصطفیٰ کمال پی ایس پی میں آ کر پاک صاف ہو گئے ہیں اس وقت وہ سٹی ناظم کراچی تھے۔۔۔ کراچی کی تمام مشینری ان کے ہاتھ میں تھی ۔ ڈیڑھ سو لوگ صرف اس لیے مار دیے گئے کہ جنرل پرویز کو جسٹس افتخار محمد چودھری پسند نہیں تھے ۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی 12 مئی کے سانحے کو یاد کر رہی ہے ۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔؟ اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس سانحے پر بیان بازی کرے ۔ 5 سال اقتدار میں رہی لیکن کسی سانحے کے ذمے دار قاتلوں کو انجام تک نہیں پہنچایا ۔ انجام تو درکنار کٹہرے میں ہی نہیں لائے بلکہ اقتدار میں شریک کرکے طاقتور بنایا ۔ اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی ہی کا دور سندھ میں رہا۔۔۔ اس نے سانحہ 12 مئی ، سانحہ طاہر پلازہ، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرموں کو اپنا حلیف ہی بنا کر رکھا ۔ وہ تو مرکزی حکومت اور فوج کی ناراضی کے سبب متحدہ کے خلاف آپریشن ہو گیا ورنہ وہ آج بھی حکومت میں ہوتی ۔۔۔ ویسے اب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چند ماہ بعد کون حکومت میں ہو گا۔۔۔ جادو گر کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سانحہ 12 مئی کے تمام ذمے دار آج کل کراچی میں وی آئی پی بنے ہوئے ہیں لیکن چونکہ ساری بد معاشیوں اورجرائم کے حوالے سے کھاتہ صرف الطاف حسین کا کھلا اس لیے یہ سارے مجرم آج کل پاک صاف ہیں ۔ 12 مئی کے شہداء ، طاہر پلازہ اور بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے شہداء اور کراچی کے 35 ہزار جوانوں کے ورثاء پوچھ رہے ہیں کہ
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
حالانکہ ان قاتلوں نے نقاب اور دستانے دونوں ہی نہیں پہنے ہوئے تھے لیکن پھر بھی کسی کو خون آلود ہاتھ نظر نہیں آئے۔ اس قتل عام میں سب سے زیادہ اے این پی کے لوگ مارے گئے ۔ سعید غنی اور شیری رحمن پر بھی حملے ہوئے لیکن انہی لوگوں نے قاتلوں کو سینے سے لگائے رکھا ۔