بے وقت کی راگنی!

313

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے خلاف مقدمات کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا تو مخالفین نے ان کے بیانیے کو ملک کے خلاف سازش قرار دے ڈالا۔ مخالفین کا استدلال تھا کہ اگر سازش ہورہی ہے تو اس کے پیچھے کون ہے؟۔ میاں نواز شریف سازش سازش کی رٹ لگا کر تذبذب کی فضا پیدا کررہے ہیں، غلط فہمیاں پیدا کرکے اداروں کو رسوا کرنے کی مکروہ سازش کررہے ہیں۔ جواباً میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ وقت آنے پر سب کچھ بتاؤں گا۔ سیاست میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اچھے سیاستدان قبل از وقت یا بعدازوقت کچھ نہیں کہتے۔ عمران خان کا المیہ یہی ہے کہ وہ درست فیصلے بھی غلط وقت پر کرتے ہیں سو، ان کے اچھے فیصلے بھی بے وقت کی راگنی بن جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی گتھیوں کو سیاسی طور پر ہی سلجھایا جائے اگر میاں نواز شریف ان کے مشوروں پے عمل کرتے تو درپیش مشکلات سے بچ جاتے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کے بیانیے کی تصدیق کردی ہے۔ کہتے ہیں جمہوریت خطرے میں ہے کوئی نادیدہ قوت جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے، اس نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں جو اداروں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کررہے ہیں۔ بداعتمادی کی یہ روش ملک کے لیے انتہائی مہلک اور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ حکومت کی مدت ختم ہورہی ہے، الیکشن کی تیاری ہورہی ہے مگر لوگوں کو یقین نہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کو یقین کیوں نہیں، بداعتمادی اور بدگمانی کی یہ فضا کس نے پیدا کی ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ شکوک و شبہات کی ایک بڑی وجہ میاں نواز شریف کی غلطی بھی ہے مگر پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا، جو لوگ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے وہ ملک چلانے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ کوئی بھی ادارہ چلانے کے اہل نہیں ہوتے، حکمت پر طاقت غالب آجائے تو ملک کے تمام ادارے اپنی ساکھ کھودیتے ہیں اور ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو بداعتمادی اور انتشار کا باعث بنتی ہے، گالم گلوچ اور الزام تراشی کی سیاست اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ شاہ صاحب نے اس روش پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کی سیاست ہورہی ہے۔ فرماتے ہیں ہمارے دور اقتدار میں عوام مطمئن تھے ہم ان کی مشکلات کا ازالہ کرنا اپنی ذمے داری اور اپنا فرض سمجھتے تھے سو، ان کے مسائل پر توجہ دیا کرتے تھے اور سنجیدگی سے ان پر غور کیا کرتے تھے مگر آج اسلام آباد آنے والوں کا استقبال ڈنڈوں سے کیا جاتا ہے، گویا شاہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے دور حکمرانی میں امن کا دور دورہ تھا، اسلام آباد آنے والوں کی آؤ بھگت کی جاتی تھی اور آج ان کی درگت بنائی جاتی ہے۔
شاہ صاحب! حکومت کسی کی بھی ہو وہ اپنے کارکنوں ہی کو خوش آمدید کہتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کا ایک پُرجوش کارکن اسلام آباد گیا اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی وہ ملازمت کا خواہش مند تھا اسے دو محکموں میں ملازمت کا پروانہ عطا کردیا گیا۔ ہم سے ملاقات ہوئی، دیکھا! خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا۔ ہم نے تقررنامے دیکھے تو ہنسی آگئی حیران ہو کر بولا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ ہم نے کہا تم نے اپنی ساری ذہانت اپنی پارٹی کے لیے وقف کردی ہے کچھ اپنے لیے بچالیتے تو آنے والے صدمے سے محفوظ رہتے۔ موصوف کا پارہ چڑھ گیا کہنے لگا صاف صاف کہو تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ہم نے کہا بے وقوف آدمی تمہارے ساتھ مذاق کیا گیا ہے، تقررنامے پنجاب کے ہیں اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ موصوف کو ملازمت نہ مل سکی مگر اسے ٹھیکے دار بنادیا گیا۔ اب وہ ایک خوش حال ٹھیکے دار ہے۔ شاہ صاحب حکومت کسی کی بھی ہو، وہ ملک کے سارے وسائل میں سیاستدانوں اور اپنے کارکنوں کے لیے وقف کردیتی ہے، عوام کو کچھ نہیں ملتا۔
جمہوریت ہے اپنے وطن میں
سب کچھ بجا ہے، جا بجا نہیں کچھ