پرویز مشرف دور میں جب نجی ٹی وی چینلوں کی منظوری دی گی تو کسی کو بھی اس بات کا علم اور ادراک نہیں تھا کہ یہی نجی ٹی وی چینل آگے چل کر شیطان کی آنت بن جائیں گے۔ ہماری زبان بھی خراب کریں گے اور اخلاق بھی تباہ کرکے رکھ دیں گے۔ جب ملک میں نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے تب صرف پی ٹی وی تھا اس کے پروگرام‘ خبر نامہ اور ڈارمے کسی نہ کسی حد تک معقول اور معیاری تھے اور زبان کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا لیکن نجی ٹی وی چینلوں نے تو معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کراس میڈیا پالیسی نے تو اخبارات کی بھی مت مار دی ہے نجی ٹی وی چینلوں سے قبل اخبارات میں رپورٹنگ کے لیے محنت ہوتی تھی اب صرف ایک ٹکر دیکھا اور اسی کی بنیاد پر ’’مفصل جامع خبر گڑھ‘‘ دی جاتی ہے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں‘ وہ کس قدر اچھا وقت تھا جب پی ٹی وی پر نشریات کا آغاز نور بصیرت سے ہوتا اور اختتام پر قومی ترانہ بجایا جاتا‘ آج یہ دونوں ٹی وی اسکرین پر دیکھے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے‘ ہر ٹی وی اسکرین پر اچھل کود ہے اور کھلے گریبان ہیں‘ دینی پروگراموں کے لیے گلو کاروں‘ اداکاروں سے مشقت لی جاتی ہے کہ ریٹنگ کا مسئلہ ہے‘ دینی پروگرام کے لیے میزبان کا سارا دھیان اپنے لباس کی جانب ہوتا ہے پروگرام کے لیے زبان‘ مواد اور پختگی کا کوئی خیال نہیں رکھاجاتا۔ بے حیائی اس قدر کہ ڈارمے تو کیا اشتہارات تک نہیں دیکھے جاسکتے۔
جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے والی اس بے حیائی کے خلاف ایک رٹ درخواست عدالت عظمیٰ میں دائر کی تھی یہ درخواست ابھی تک زیر التواء ہے اور فیصلے کی منتظر ہے لیکن بھلا ہو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج‘ جناب جسٹس شوت عزیز صدیقی کا ‘ جنہوں نے ٹی وی چینلوں پر رمضان المبارک کے دوران اچھل کود‘ لاٹریوں والے پراگرامات پر پابندی لگادی ہے اور حکم جاری کیا ہے کہ اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی سطح کے اسکالرز ہی اسلامی شعائر سے متعلق گفتگو کریں گے۔ یہ فیصلہ بہت پہلے آجاتا تو الیکٹرونک میڈیا کافی سدھر چکا ہوتا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے ہمت پکڑی اور فیصلہ سنا دیا انہیں جب بھی اپنے روبرو پیش کیے جانے والے مقدمات کی سماعت کے دوران موقع ملتا ہے بہت عمدہ ریمارکس دیتے ہیں۔ متنازع خاکوں سے لے کر ناموس رسالت کیس تک ہر مقدمے میں انہوں نے جرأت دکھائی اور ٹھوس فیصلے دیے اب رمضان ٹرانسمیشن کے لیے چینلوں کو غیر اسلامی اور غیر آئینی مواد دکھانے اور روکنے میں ذرا برار بھی نہیں کوتاہی نہیں کی۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے جس کے ساتھ ہی مختلف ٹی وی چینلوں نے سال کے گیارہ ماہ تک ناچنے گانے والوں بشمول اداکار، ادکارائیں اور گلوگار، گلوکاراؤں سے اس مقدس مہینے میں پروگرام کرانے کے لیے تیاری کررہے تھے‘ پیکج ڈیل ہورہی تھی‘ لباس کے نت نئے ڈیزائن تیار کیے جارہے تھے اب یہ سب کچھ دھرے کا دھرا گیا ہے اس بابرکت مہینے کو انٹرٹینمنٹ میں نہیں بدلا جاسکے گا۔ ٹی وی چینلوں نے تو وتیرہ بنا لیا تھا کہ رمضان المبارک کو اس انداز میں سال ہا سال سے پیسہ کمانے کے لیے بیچا جاتا تھا لوگ کڑھتے تھے لیکن میڈیا کی طاقت کے سامنے نہ کوئی ادارہ بولتا ہے نہ ہی حکومت اور عدالت۔ گویا رمضان کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں جسٹس شوکت صدیقی نے ٹی وی چینلوں کے ذریعے ان غیر اسلامی رجحانات کو روکنے کا بیڑا اٹھایا انہوں نے تمام ٹی وی چینلوں کو پیمرا کے ذریعے ایک کوڈ آف کنڈکٹ کا پابند بنایا۔
جسٹس شوکت صدیقی نے رمضان کے دوران ٹی وی چینلوں پر ہر قسم کے نیلام گھر پر پابندی عائد کردی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دے دیا ہے کہ اس رمضان کے دوران کسی چینل پر نیلام گھر اور سرکس نہیں ہوگا جب کہ ہر چینل کے لیے پانچ وقت کی اذان نشر کرنا لازم ہوگا۔ جسٹس صدیقی نے ریمارکس بھی دیے کہ جو بعض چینلوں میں ہو رہا ہے اگر وہی کرنا ہے تو پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوریہ ہٹا دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسلام کا تمسخر اڑانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے اور کہا کہ مسلمانوں کے لیے اذان سے بڑی بریکنگ نیوز کوئی نہیں لیکن کوئی چینل رمضان المبارک میں اذان نشر نہیں کرتا بلکہ اذان کے اوقات میں چینل ناچ گانا اور اشتہارات چلاتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے غیر ملکی خصوصاً بھارتی اشتہارات، ڈراموں اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلوں کے خلاف فحاشی و عریانیت پھیلانے پر کارروائی کی بھی ہدایت کی ہے۔
پیمرا کی طرف سے رمضان المبارک کے دوران نشریات سے متعلق ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس صدیقی نے حکم دیا کہ ان ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے ساتھ یہ بھی لازم قرار دیا کہ افطاری سے پانچ منٹ قبل کوئی اشتہار نہیں چلے گا بلکہ اس وقت صرف دعا کی جائے گی اور درود شریف پڑھا جائے گا۔ اداکاروں، گلوکاروں کے بجائے صرف اُنہی لوگوں کو مدعو کیا جائے گا جو دین کی روح سے واقف ہوں گے اور مستند علم رکھتے ہوں گے۔ غیرشائستہ، نازیبا اور پرتشدد مناظر نشر کرنے سے گریزکیا جائے گا، پروگراموں کے دوران لاوارث بچوں کو بے اولاد افراد کے سپرد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جسٹس صدیقی کا یہ فیصلہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا انہیں چاہیے کہ اب ایک اور قدم اٹھائیں کہ احترام رمضان المبارک آرڈیننس کی بھی پابندی کرائیں۔