عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

900

اقلیم سخن کے تاجدار مرزا غالبؔ نے کہا تھا
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب!
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
ہمارا کپتان ان دنوں اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ بائیس تیئس سال تھوڑے نہیں ہوتے، اس نے وزارت عظمیٰ کے عشق میں بہت صبر کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے ناز اُٹھائے اس کے نام نہاد ریفرنڈم میں جوش و خروش سے حصہ لیا کہ شاید گوہر مقصود ہاتھ آجائے اور فوجی آمر اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ اس کے حوالے کردے لیکن اس نے بھی بے وفائی کی اگر وہ ظفر اللہ جمالی کو ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بنواسکتا تھا تو اس میں کیا خامی تھی، ایک ووٹ تو اس کے پاس بھی تھا، یہ 2002ء کے انتخابات کی کہانی ہے۔ 2008ء کے انتخابات کا تو اس نے میاں نواز شریف اور قاضی حسین مرحوم کے بھرّے میں آکر بائیکاٹ کردیا تھا۔ میاں نواز شریف نے حسب عادت چالاکی دکھائی ، بائیکاٹ کے وعدے سے پھر گئے اور وہ جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابات کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ یوں اس نے پانچ سال تک انتظار کی سولی پر لٹکتے ہوئے گزارے۔ 2013ء کے انتخابات کے لیے کپتان نے بھرپور تیاری کی، اس کا خیال تھا کہ اب کی دفعہ اس کی باری ہے اور کوئی مائی کا لعل اسے ہرا نہیں سکتا۔ 29 اکتوبر 2011ء کے مینار پاکستان کے جلسے نے بھی اس تاثر کو گہرا کیا۔ میڈیا نے اس جلسے کی خوب ہوا باندھی اور پوری قوم کو باور کرایا کہ کپتان آگیا اور چھا گیا ہے اب کوئی طاقت اسے وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتی۔ اس کے وزیراعظم بنتے ہی پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی، ایک نیا پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرے گا جس میں ہر طرف انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے لا کر قوم کے قدموں میں ڈھیر کردی جائے گی، غربت، ناداری، بیروزگاری اور بیماری کو ملک سے نکال دیا جائے گا، ملک میں تعلیم کا نصاب امیر اور غریب سب کے لیے یکساں ہوگا اور پاکستان پوری عالمی برادری میں ایک رول ماڈل بن جائے گا۔ لیکن افسوس انتخابات ہوئے تو لاٹری میاں نواز شریف کے نام نکل آئی اور کپتان ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اس کے مشیروں نے اسے بتایا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے ورنہ باری اس کی تھی۔ چناں چہ وہ مبینہ دھاندلی کے خلاف سر پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آیا۔ اس نے سب سے پہلے لاہور کے چار انتخابی حلقوں کے نتائج کھولنے کا مطالبہ کیا۔ اس کا
یہ مطالبہ تو نہ مانا گیا البتہ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کردیا گیا جس نے معاملے کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ دیا کہ انتخابات میں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں تو ضرور ہوئی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے لیکن بڑے پیمانے پر ایسی کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی جسے دھاندلی کا نام دیا جاسکے۔ اس لیے انتخابات کو دھاندلی کی پیداوار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کپتان تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سے مایوس ضرور ہوا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور ’’دھاندلی کی پیداوار حکومت‘‘ کو رخصت کرنے کے لیے دھرنے پر اُتر آیا۔ ابتدا میں اس کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری نے بھی اس کا ساتھ دیا لیکن وہ دو مہینے کے بعد اپنا مختیانہ وصول کرکے کینیڈا سدھار گئے اور کپتان کو اکیلے ہی یہ محاذ سنبھالنا پڑا۔ وہ بہت پرجوش تھا اور بار بار یہ اشارہ دے رہا تھا کہ بس امپائر کی انگلی اُٹھنے کی دیر ہے اس کی فتح کا ڈنکا بج جائے گا اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے نکلنا پڑے گا۔ اس آس میں کئی مہینے گزر گئے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، کپتان کے جوشیلے کارکن بھی بیٹھے بیٹھے تنگ آگئے تو اسے بوریا بستر لپیٹنا پڑا۔ اب بظاہر کوئی چانس نہ تھا کہ وہ میاں نواز شریف کو اقتدار سے آؤٹ کرسکے گا لیکن قدرت دُھن کے پکے لوگوں کی قدر کرتی ہے وہ انہیں مایوس نہیں ہونے دیتی۔ کپتان کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اسے مایوسی سے بچانے کے لیے پاناما لیکس نازل ہوگئیں اور وہ انہیں لے کر عدالت میں چلا گیا، خود میاں نواز شریف کی شامت بھی آئی ہوئی تھی انہوں نے بھی یہ تنازع پارلیمنٹ میں طے کرنے کے بجائے عدلیہ سے رجوع کرنے کو ترجیح دی۔ انہیں اندازہ نہ تھا کہ عدلیہ اب بدل چکی ہے، اس میں صرف آئین اور قانون کی بات چلے گی، اگر قانون کا پھندا ان کے گلے میں فٹ آگیا تو پھر کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا۔ میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں خود ان کی بے تدبیری اور بدقسمتی کا زیادہ دخل ہے البتہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کپتان کی ٹوپی میں بھی سرخاب کے پَر لگ گئے ہیں اور اس کا یہ دعویٰ بے محل نظر نہیں آتا کہ اس نے نواز شریف کی وکٹ گرادی ہے۔
اب کپتان کو پورا یقین ہے کہ اسے وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، اس یقین اور اعتماد کے ساتھ اس نے لاہور میں 29 اپریل کو مینار پاکستان پر دوسرا جلسہ کیا ہے جسے سونامی پلس کہا گیا ہے، اس جلسے میں اس نے اپنا وہ انتخابی منشور پیش کیا ہے جسے گیارہ نکات کا نام دیا جارہا ہے۔ اب میڈیاا میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ان گیارہ نکات میں سے آٹھ نو نکات تو وہ ہیں جو اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیار میں آئے ہیں اور صوبہ خیبرپختونخوا میں کپتان کی پارٹی پانچ سال سے حکومت کررہی ہے، آخر اس نے وہاں یہ آٹھ نکات کیوں نافذ نہیں کیے۔ خیبرپختونخوا میں تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر سماجی شعبوں کی حالت اتنی دگرگوں کیوں ہے، لوگ بنیادی سہولتوں کے
لیے کیوں ترس رہے ہیں، صوبے میں احتساب کا نظام اتنا کمزور کیوں ہے کہ خود وزرا ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگارہے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا کو تو پاکستان پر حکمرانی کے لیے ایک رول ماڈل ہونا چاہیے تھا جسے دیکھ کر پورے پاکستان کے عوام کپتان کے حق میں ووٹ دیتے اور اسے وزارت عظمیٰ کے تخت پر بٹھا کر نئے پاکستان کا نظارہ کرتے، اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں خراب کارکردگی کے سبب یہ صوبہ بھی کپتان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ اسی جگہ جاکھڑا ہوگا جہاں آج سے بائیس تیئس سال پہلے تھا۔ یہ اس کے مخالفین کی رائے ہے خود اس کا خیال یہ ہے کہ اس نے اتنے ’’ایلیکٹ ایبلز‘‘ جمع کرلیے ہیں کہ اسے اب کوئی نہیں ہراسکتا لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایلیکٹ ایبلز کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا وہ ہوا کا رُخ دیکھ کر کہیں بھی اُڑان بھر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو کپتان پر کیا گزرے گی اور وزارت عظمیٰ کے لیے اس کی بے چینی کیا رنگ لائے گی۔ ابھی تو انتخابات میں کئی مہینے پڑے ہیں اور خود کپتان کی اطلاع یہ ہے کہ انتخابات میں دو ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے۔ انتخابات دو ماہ تاخیر سے بھی ہوئے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وزارت عظمیٰ کپتان کے ہاتھ لگ جائے گی، بعض ستم ظریف تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کپتان کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیں ہے۔ لکیر نہ سہی وزارت عظمیٰ سے کپتان کا عشق تو مثالی ہے اسی لیے غالبؔ کا یہ شعر اس پر فٹ بیٹھتا ہے۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب!
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک