پاک امریکا تعلقات بحران در بحران

320

امریکا نے پاکستان کے سفارت کاروں کی نقل وحرکت محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کے مطابق پاکستانی سفارت کار اپنی جائے تعیناتی کی حدود سے پچیس کلومیٹر باہر جانے کے لیے حکومت سے پیشگی اجازت لینے کے پابند ہوں گے۔ اس کے ترکی بہ ترکی جواب کے طور پر پاکستان نے بھی امریکی سفارت کاروں کی نقل وحرکت محدود کرنے اور حاصل سہولتیں واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک پاکستانی شہری کو کچل ڈالنے والے امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ بھی اس جواب کا حصہ ہے۔ پاکستان نے سفارت کاروں کی نقل وحرکت محدود کرنے کے امریکی فیصلے کو روکنے کے لیے درپردہ کوششیں تو کیں مگر بگڑے ہوئے امریکیوں نے ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ان پابندیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستان میں بھی امریکا اور دوسرے ممالک کے سفارت کار اسی نوعیت کی پابندیوں کا سامنا کررہے ہیں اور اب ان پابندیوں میں جوابی طور پر مزید سختی آئے گی۔
ایک زمانہ ہوتا تھا کہ امریکی سفیر اسلام آباد سے کراچی تک ایک وائسرائے کی طرح دندناتے پھرتے تھے اور ہر مقام پر اس کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا جاتا تھا۔ امریکی سفیر کی نظروں میں آنے کا مطلب خوش بختی اور خوش قسمتی کے دروازوں کی چابی ہاتھ آجانا ہوتا تھا۔ اسی طرح امریکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز کے لیے پاکستان ایک نرم چارہ ہوتا تھا وہ اپنا ایجنڈا تھامے ملک کے کسی کونے کسی بھی طبقے کے ساتھ روابط استوار کرتے اور پھر اس شخصیت اور طبقے پرفنڈز کی بارش ہونے لگتی۔ امریکی سفیر پاکستان میں سیاست کی اُلجھی زلف سلجھانے کا کام بھی کسی جھجک اور پردے بغیر انجام دیتے اور سیاست دان بھی دوڑ دوڑ کر امریکی سفیر سے شکایت کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتے۔ وکی لیکس کے مطابق اسی روایت کے پیش نظر مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر سے وزیر اعظم بننے کے لیے مدد بھی طلب کی تھی۔ پی ٹی آئی کے ایک مخدوم راہنما کے بارے میں بھی مشہور ہوا تھا کہ امریکی سفیر سے ایسی ہی خواہش کا اظہار کر بیٹھے تھے جس کی بھنک عمران خان کو بھی پڑ گئی تھی۔ معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے اجنبی اور بھولے بسرے پاکستانی امریکا کی مہربانیوں ہی سے پاکستان میں اعلیٰ عہدوں سے محظوظ ہوتے رہے۔ کئی برس سے یہ منظر بدل رہا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی عمارت چھوٹی اور واقعی سفارتی ضرورتوں کے مطابق تھی۔ چند برس سے منظر بدل گیا اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی دیوہیکل اور وسیع وعریض عمارت تعمیر ہو گئی مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں پہلی سی گرم جوشی رہی نہ امریکی سفیر کا وائسرائے والا کردار باقی رہا۔ سفارت خانہ کی عمارت بڑی ہوگئی مگر تعلقات سکڑ کر رہ گئے۔ اب پاکستان میں امریکی سفیر بھی یورپ اور عرب کے سفیروں کی بھیڑ میں گم ایک سفیر ہی ہوتے ہیں۔ ان سے ہاتھ ملانا خوش بختی سے زیادہ بد بختی کی علامت بن چکا ہے۔ اب امریکی سفیر کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھنا سیاسی خودکشی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ یہی حال امریکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز کا ہے۔ جو پاکستان کے دباؤ پر اپنا کاروبار سمیٹ کر جا چکی ہیں۔ ان اقدامات اور تبدیلیوں کا تعلق پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں در آنے والی کشیدگی اور ان کے تیزی سے تغیر پزیر دفاعی تصورات اور ضرورتوں سے ہے۔ امریکا اور پاکستان خطے میں مقاصد کے اعتبار سے اتحادی نہیں رہے بلکہ دونوں کے مفادات کی گاڑیاں دو متضاد سمتوں میں گامزن ہیں۔ دہشت گردی کی تعریف پر دونوں ملکوں میں واضح تضاد ہے اور یہی تضاد پھیل کر ہیرو اور ولن تک پہنچ چکا ہے۔ امریکا کے شکیل آفریدی جیسے ہیرو پاکستان میں غدار ہیں اور پاکستان کے ایسے ہی ہیرو امریکا کے لیے دہشت گردہیں۔ خالد خراسانی پاکستان کے لیے دہشت گرد ہے مگر امریکی دباؤ پر اقوام متحدہ اس کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالنے سے گریزاں ہے۔ حافظ سعید، صلاح الدین اور مسعود اظہر کے نام امریکا چٹکی بجاتے ہی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرائے جاتے ہیں۔ اس میں تازہ ترین اضافہ سفارت کاروں پر سفری پابندیاں ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ بہت سے مسلمان ملکوں سے نمٹ کر آگے بڑھتا ہوا امریکا اب ایران تک پہنچ چکا ہے۔ گویاکہ ایران کی باری آ چکی ہے اور اگلے ہدف کے طور پر پاکستان کو نظروں میں رکھ لیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں ہوش مندی اور مہارت درکار ہے۔ صدام حسین، معمر قذافی، حسنی مبارک، زین العابدین بن علی سے نمٹنے کے لیے امریکا کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی کیوں کہ ایک فضا قائم کر دی گئی تھی۔ عرب بہار کی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں پاکستان بہار اُٹھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال زوروں پر ہے۔ امریکا پاکستان مخالف فضاء بنا چکا ہے مگر اس فضا کو بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا امتحان ہے۔ آج عالمی منظر پر امریکا کا غلبہ ہے مگر یونی پولر نظام کی آہنی دیوار میں دراڑ بہت واضح دکھائی دے رہی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے امید کی کرن ہے اور پاکستان کو اس منظر میں اپنے موقف کے لیے جگہ بنانا ہوگی۔