کسی بھی ملک کی معیشت میں سالانہ بجٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ نہ صرف سال بھر کے اخراجات اور آمدنیوں کے تخمینہ کا عکس ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ آنے والے برسوں کی معاشی منصوبہ بندی سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً آئندہ سال معاشی ترقی کی شرح کیا ہوگی، افراط زر یا مہنگائی کہاں تک جائے گی، مزید کتنی ملازمتیں پیدا کی جائیں گی یا بیروزگاری کو کس طرح کم کیا جائے گا، زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبے کس شرح سے ترقی کریں گے۔ ایک اچھی بجٹ سازی میں ان تمام اہداف کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے بجٹ سے پہلے سرکاری اور نجی سطح پر مختلف اجلاس، میٹنگز اور سیمینارز ہوتے ہیں جن میں بنیادی طور پر ملک کے معاشی پالیسی سازوں کو تجاویز اور مشورے دیے جاتے ہیں تا کہ ملک کے مفاد میں ایک بہتر سے بہتر بجٹ تیار ہوسکے اور معاشرے کے تمام ہی طبقات کو اس بجٹ سے فائدہ پہنچ سکے۔ اسی طرح حکومت کی طرف بجٹ پیش ہوجانے کے بعد اس پر تنقید، تبصرہ، اظہار رائے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس کا سب سے اہم فورم تو پارلیمنٹ ہوتی ہے جہاں ملک بھر کے تمام اراکین اپنی اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں اس کے علاوہ معاشی محققین، دانشور، بزنس مین اور تعلیمی اداروں میں بھی مختلف پروگرامات، مجالس کا انعقاد کرکے بجٹ کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔
پچھلے ہفتے محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں پوسٹ بجٹ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں معاشی ماہرین، بزنس مین اور میڈیا سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے اظہار خیال کے بعد طلبہ و طالبات نے ملکی معیشت، بجٹ اور آنے والے خطرات و چیلنجوں پر سوالات بھی کیے۔ ایک نکتہ جس پر تمام مقررین متفق تھے کہ حکومت کا یہ بجٹ اصل میں انتخابی بجٹ ہے جس میں لوگوں کو طرح طرح کی مراعات و سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جب کہ معیشت کا سماجی شعبہ جس کا تعلق تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صفائی و ستھرائی سے ہے ان کو حسب معمول نظر انداز کردیا گیا ہے جس طرح یہ شعبے سالہا سال سے پس ماندگی کا شکار رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شرکا کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں تعلیم و صحت کے شعبوں کا جو معاملہ ہے وہ باقی دنیا سے یکسر مختلف ہے، یہاں پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ایک طرف پبلک سیکٹر ہے جب کہ دوسرا پرائیویٹ سیکٹر ہے، دنیا بھر میں بچوں کی اسکول ایجوکیشن میں پبلک سیکٹر نمایاں نظر آتا ہے، پرائمری اور سیکنڈری اسکول صوبائی اور بلدیاتی اور کمیونٹی کی بنیاد پر چلتے ہیں جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور بعض اوقات کتابیں، یونیفارم اور کھانا پینا بھی سرکار کی طرف سے ملتا ہے اگر بچوں سے فیس بھی لی جاتی ہے تو وہ بہت معمولی ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں پرائمری، پری پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے لیے نجی شعبہ میں مہنگے مہنگے اسکول قائم ہیں بلکہ اسکولوں کی چین چل رہی ہے جس کے تحت پورے شہر اور پورے ملک میں اسکول کھلے ہوئے ہیں جب کہ پبلک سیکٹر کے اسکولوں کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چناں چہ تمام ہی والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح پاکستان میں شہری علاقوں میں ایک گھرانے کی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوجاتا ہے، بالکل یہی صورت حال اسپتالوں کی ہے، ایک طرف سرکاری اسپتال ہیں جہاں نہ دوائیاں ہیں نہ ڈاکٹر اور نہ پینے کا پانی ہے اور نہ ہی بجلی اور دوسری طرف پرائیویٹ اسپتال ہیں جہاں علاج معالجہ اتنا مہنگا ہے جس سے سب واقف ہیں۔
سیمینار میں زراعت کی اہمیت اور ملکی معیشت میں اس کا کردار زیر بحث آیا اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی اور رعایتوں کا ذکر ہوا لیکن پانی کی مسلسل کمی کے سلسلے میں موجودہ بجٹ میں کسی منصوبے کا ذکر نہیں ہے، اسی طرح حکومت کی طرف سے گنے اور گندم کی فصلوں کی خریداری کے لیے امدادی قیمت کا تو اعلان ہوتا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ خصوصاً گنے کے کاشتکار اپنی فصل کو بیچنے میں جس تکلیف اور اذیت سے گزرتے ہیں وہ پورے پاکستان کے سامنے ہے۔ شوگر مل مالکان ہر سال شروع میں گنا خریدنے کو تیار نہیں ہوتے، اگر خریدتے ہیں تو کم قیمت پر اور اس کی ادائیگیاں بہت تاخیر سے ہوتی ہیں، اس صورت حال میں ایک کاشتکار کس طرح کاشتکاری کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے، روپے کی قدر میں کمی، ہر طرف پھیلا ہوا کرپشن اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی جیسے موضوعات بھی زیر بحث آئے اور سیمینار اس اُمید پر ختم ہوا کہ موجودہ حکومت کی مدت تو ختم ہونے والی ہے ہوسکتا ہے آئندہ آنے والی حکومت بہتر کارکردگی دکھائے اور اس طرح ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو۔