اسلامی پاکستان، عوام کی ذمے داری

341

متحدہ مجلس عمل کے قائدین نے 23 مارچ 1940ء کی یاد گار مینار پاکستان کے سائے تلے عزم کا اظہار کیا ہے کہ مجلس عمل نیا نہیں اسلامی پاکستان بنائے گی۔ مجلس عمل کے قائدین نے قرارداد پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں امریکا نواز سیکولر حکمرانوں کی بالادستی قبول نہیں کریں گے۔ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پارلیمنٹ کو اور سیاست کو عالمی دباؤ سے نجات دلائیں گے۔ معیشت کو ان کے چنگل سے نکالنا ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہاکہ عوام ظالموں کے بنگلوں کا طواف چھوڑدیں اب اپنے ووٹ کا استعمال اپنے لیے کریں۔ دونوں ہی رہنماؤں اور دیگر قائدین نے ایک ہی بات کی ہے کہ سارا انحصار انتخابات میں ووٹوں کے حصول پر ہے۔ اگر عوام نے مجلس عمل کو کامیاب بنایا تو پاکستان کو نیا یا اسلامی بنایا جاسکے گا۔ عام طور پر دینی جماعتوں پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ہروقت اسلام کی باتیں کرتی ہیں کیا ہم مسلمان نہیں۔ جنرل پرویز بھی یہی کہتے تھے میاں نوازشریف بھی، بے نظیر اور ان کے والد بھی، جنرل ضیا الحق تو امیر المومنین مشہور ہوگئے تھے لیکن یہ سب مسلمان ہونے کے باوجود پاکستان کو اسلامی نہیں بناسکے۔ بیشتر تو چاہتے ہی نہیں تھے اور اگر کوئی چاہتا تھا تو بھی اسے معاشرے، دنیا اور خصوصاً مغرب کا خوف تھا۔ اگر اسلام خطرے میں ہے کے نام پر کسی نے کسی زمانے میں سیاست کی تھی تو آج ریاست خطرے میں ہے کی سیاست ہورہی ہے۔ جب کہ ریاست کو خطرہ ہی اس لیے ہے کہ اسے اسلامی نہیں بنایا جارہاہے۔ متحدہ مجلس عمل کا لاہور کا جلسہ محض ایک جلسہ نہیں تھا بلکہ یہ سازشی عناصر کی سازشوں کے ابوجود دینی جماعتوں سے اور دین سے عوام کی وابستگی کا اعلان تھا۔ اس جلسے نے یقیناًبہت سوں کی نیندیں اڑادی ہیں لیکن بحیثیت مسلمان یہ ذمے داری پورے پاکستان کے مسلمانوں کی ہے کہ وہ مسجد سے باہر نکل کر بھی اﷲ کی بڑائی کا اعلان کریں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اﷲ کا قانون نافذ کرنا ہوگا اس کے لیے حکومت ایسے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جو اس ملک میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہوں۔ لہٰذا دینی جماعتوں کی ذمے داری بعد میں شروع ہوگی پہلے تو عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو منتخب کریں۔ جب مجلس عمل منتخب ہوگی تو پھر اس کی ذمے داری ہوگی۔ ووٹ دیتے ہوئے ایک بات ضرور ملحوظ رہے کہ اب تک جن لوگوں کو عوام نے اقتدار دیا ہے ان کی کارکردگی ملک و قوم کے لیے قابل تحسین نہیں۔ دوسری طرف دینی جماعتوں کو کبھی آزمایا نہیں گیا۔ ایک بار یہ تجربہ بھی کر کے دیکھیں۔