کیا صرف نواز شریف نے یہ سب کہا ہے؟

423

میاں نواز شریف کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ایسا کہہ کر وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پاک فوج پر الزام تراشی کی ہے۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا اور اس نے نواز شریف سے پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کردیا۔ٹی وی چینل پر جو لوگ اب دفاعی، سیاسی، قومی تجزیہ نگار ہیں وہ ان کے سوا سب کچھ ہیں۔ تجزیہ نگار ہیں۔ نیوز ایجنسیوں کی خبروں کے مطابق جن میں تجزیہ زیادہ اور خبر کم تھی کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے معاصر روزنامے ڈان کے رپورٹر کو ایک بار پھر استعمال کیا ہے۔ یہ سوال دوسری جانب سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ فوج کے خلاف دوسری مرتبہ وہی اخبار وہی اخبار نویس کیوں۔ کیا نواز شریف نے استعمال کیا ہے یا کسی اور نے۔زیادہ دن نہیں گزرے، جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے، ٹی وی انٹرویو میں فرمارہے تھے کہ پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی تربیت کی جاتی تھی ان کی سپورٹ کی جاتی تھی کہ یہ مجاہدین ہیں یہ بھارتی فوج سے لڑیں گے۔ اپنے حقوق کے لیے۔ پھر لشکر طیبہ وغیرہ بنیں۔ پھر دس بارہ اور بنیں، وہ ہمارے ہیرو تھے، کشمیر میں اپنی جان پر کھیل کر اپنے بھائیوں، بہنوں کے لیے لڑ رہے تھے۔ سابق سفیر سابق جنرل آئی ایس آئی اسد درانی فرماتے ہیں کہ 26 نومبر 2008ء کو ممبئی میں سرحد پار دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہوا، میں بڑی نفرت سے اس کو تسلیم کرتا ہوں، بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل اسد درانی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس وقت قومی سلامتی کے مشیر تھے، انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ بداعتمادی معقولیت پر حاوی تھی۔ بہرحال انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا مشورہ انہوں نے دیا تھا یا نہیں اور آگے بڑھیں۔ جنرل حمید گل مرحوم نے بھی اسے مسترد نہیں کیا بلکہ یہ کہا تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ بھارت کا ممبئی کے بارے میں یہ الزام ٹھیک ہی ہے کہ کوئی لشکر طیبہ کوئی مجاہدین کی تنظیم یہ ممکن ہے۔ اور آگے بڑھ کر دیکھیں۔ عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈرتے ڈرتے کہا کہ ایسا ممکن ہے، یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کارروائی ہے۔ سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کے دور کے مشیر داخلہ جناب رحمن ملک فرماتے تھے کہ اس سازش کا کچھ حصہ پاکستان میں ہوا۔ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق جو لوگ ملوث تھے ان میں سے بیشتر ہماری تحویل میں ہیں۔ ہم نے ان مقامات کی نشاندہی بھی کرلی ہے جو دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کے لیے استعمال کیے تھے۔ یہی رحمن ملک صاحب کراچی سے ممبئی تک کے سفر کے بارے میں پوری کہانی اخبار نویسوں کو سنا چکے ہیں۔ دہشت گردوں نے اسلحہ کہاں سے خریدا، کشتی کہاں سے لی، کیسے نکل کر گئے، کس طرح مختلف مقامات پر جا کر چھپے۔ ہمارا ٹی وی اینکر پاکستان کے نمبر ایک دشمن غدار وطن مجیب کے نام کا ایوارڈ حاصل کرنے والا اجمل قصاب کے گھر کا پتا ٹی وی پر بتارہا تھا۔ آج پوچھ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو ایسی باتیں کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ اور عمران خان تو ڈر بھی گئے ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت اور حافظ سعید کا نام لے کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کی نگرانی ہونی چاہیے، تو انہوں نے کہا کہ میں پاکستان میں رہتا ہوں جہاں گورنر کو گولی مار دی جاتی ہے، قاتل ہیرو بن گیا یہاں زندگی بڑی سستی ہے، یہ تو وہ چند ایک ویڈیو کلپس ہیں جو سماجی میڈیا کے ذریعے سامنے آچکی ہیں جن میں یہ لوگ اپنی زبان سے یہ باتیں کررہے تھے۔ لیکن غدار نہیں ہیں۔ الطاف حسین کئی درجن مرتبہ ایسی باتیں کرکے غدار نہیں ہوئے۔ لیکن معاملات خراب ہونے کے بعد غدار ہوئے۔ محمود خان اچکزئی اسمبلی کے فلور پر اس قسم کی گفتگو کرچکے اب منظور پشتین کررہے ہیں نعرہ لگاکر یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔ یہ سب وی آئی پی پروٹوکول والے ہیں۔ ایک سرل المیڈا کا نام لیا جارہا ہے اس نے خبر دی ہے اس کی تردید کردیں۔ لیکن کیا پاکستان میں صرف ایک المیڈا ہے۔ یہاں تو ہر اخبار میں حکومت کے، ایجنسیوں کے، سیاسی پارٹیوں کے، لسانی پارٹیوں کے، این جی اوز کے، غیر ملکی سفارتخانوں کے، امریکیوں کے المیڈا موجود ہیں۔ المیڈا کو الزام کیوں دیا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ کہنا نہیں چاہیے تھا جو پہلے بہت سارے لوگ حکومت میں رہتے ہوئے کہہ چکے ہیں۔ لیکن ان کا المیہ تو آج سے نہیں ہے وہ ہمیشہ وہ بات کہہ دیتے ہیں جو نہیں کہنے کی۔ اور وہ نہیں کہتے جو کہنے کی ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ میں عافیہ اور کلبھوشن کی بات نہیں کرتے پاکستان میں کرتے ہیں۔ یہ بڑی حساس لکیر ہے ذرا اِدھر اُدھر ہوئے تو مزید باتیں سامنے آئیں گی۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایک آدمی کو ڈھیر کرنے کے چکر میں قومی مفادات کو زک نہ پہنچائی جائے وہ تو پہلے ہی ڈھیر ہوچکا۔ سیاسی حملے کیے جائیں، سیاسی میدان میں مات دی جائے، جو کچھ پھیلایا جارہا ہے اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ موضوع بحث پاک فوج بن رہی ہے۔ ٹی وی چینلز پر، اخبارات میں، سماجی میڈیا میں۔ اسے بھی اس سلسلے کو روکنے کے لیے بات جلد ختم کرنے والا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایسی باتیں چوک اور چوراہے پر نہیں کی جاتیں۔ دوسری طرف بھی بہت سے صحافی کسی نہ کسی کے دام میں ہیں۔