جسٹس شوکت عزیز نے قیامت ڈھادی ہے۔ یہ کیا کہہ دیا کہ اس بار رمضان المبارک میں دینی مسائل پر پی ایچ ڈی اسکالر سے کم کوئی بات نہیں کرے گا۔ اس پر وہ ہنگامہ ہوا ہے کہ الامان….. لوگوں کو تکلیف اٹھی کہ اداکاراؤں کو ٹی وی سے کیوں ہٹایا جارہا ہے۔ روزہ رکھنے سے قبل سحری کی محفل کسی اداکارہ کے ساتھ اور روزہ کھولتے وقت کئی کئی اداکارائیں۔ اور اچھل کود والے بندر کے تماشے والے پروگرام بھی بند ہوجائیں گے۔ لیکن دلائل کیا دیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اتنے پی ایچ ڈی کہاں ہیں جو دینی امور پر بات کرسکیں۔ اس شوشے کے پیچھے سب دوڑ پڑے۔ کچھ لوگوں نے پی ایچ ڈی اسکالرز کے حق میں دلائل دینے شروع کردیے، لیکن یہ شرط ایک ایسی شرط ہے کہ ٹی وی چینل مالکان اب پروگرام ہی نہیں کریں گے۔ انہیں پی ایچ ڈی یا علمائے اور مفتی سے کیا تعلق۔ انہیں تو اداکاراؤں کو ٹی وی پر لا کر بٹھانا تھا۔ دکھتا ہے تو بکتا ہے کہ مصداق پیسہ ملے گا۔ لہٰذا یہ بحث تو بے کار ہے کہ اتنے پی ایچ ڈی کہاں سے آئیں گے۔ دراصل ہمارے میڈیا نے اچھے اچھوں کا ذہن مسموم کردیا ہے ہر کوئی مولوی، علما یا مذہبی اسکالر صرف چند ایک علمائے دین یا مولویوں کو سمجھتا ہے جن کی شکل انہیں سیاست یا ٹی وی والوں کی وجہ سے بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ حالاں کہ مذہبی اسکالر نہ ٹی وی کے محتاج ہیں نہ میڈیا کے۔ ہر علاقے میں، ہر مسجد میں، ہر مدرسے میں یہ اسکالرز ملتے ہیں۔ دنیا ان سے پوچھتی ہے اور یہ سب کو قابل اطمینان جوابات دیتے ہیں۔ ان علما اور اسکالرز کو ٹی وی چینلز قصداً اپنے پروگراموں میں نہیں بلاتے۔ چند ایک ہی پروگرام بچے ہیں جن میں حقیقی علما کو موقع ملتا ہے۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے….. ہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پاکستان میں بے حیائی پھیلانے والوں کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو لوگ نام نہاد دانشور ہیں اور واٹس ایپ آنے کے بعد سے ہر موضوع پر بولتے ہیں ان کو بھی اسی طرح تکلیف ہوئی ہے جس طرح بے حیائی پھیلانے والوں کو ہوئی ہے۔ لہٰذا بحثیں ہورہی ہیں کہ مولوی کو آتا کیا ہے، وہ کیا بولے گا۔ رمضان میں تو فلمی اداکاراؤں کو بولنے دو، لیکن پیارے دانشورو….. جب بجٹ آتا ہے بجٹ کے بارے میں درجنوں پروگرام ہوتے ہیں ہماری خواہش ہے جو حسرت بن جائے گی کہ ٹی وی چینلز بجٹ پر بات کرنے کے لیے فلمی اداکاراؤں کو جمع کریں، زبردست نئے ڈیزائن والے کپڑے پہنا کر لائیں۔ یہ بھی مشکل کام ہوگا۔ وہ تو کم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ایسا ہوتا نہیں، بجٹ پر معیشت کے ماہرین کو لے آتے ہیں، اداکارائیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، تو پھر پاک امریکا تعلقات پر انہیں موقع ملنا چاہیے لیکن یہاں بھی آغا ہلالی اور سابق سفارتکار آجاتے ہیں۔ اور کبھی شاہد حسن صدیقی معاشی امور پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ٹی وی چینل کی ضرورت ہوتی ہے، دنیا بھر میں موضوع کی مناسبت سے تبصرہ کرنے والے منتخب کیے جاتے ہیں، آئین پاکستان پر آئینی ماہرین بات کرتا ہے کبھی ہم نے آئینی ترامیم پر اداکاراؤں کو بات کرتے نہیں دیکھا۔ جن لوگوں کو مذہب سے بیزاری ہے انہیں اس حکم یا فیصلے سے تکلیف ہے ان سارے موضوعات پر دنیا بھر میں اور خود پاکستان میں ٹی وی چینلز ان ہی شعبوں کے ماہرین کو بلاتے ہیں تو پھر دین بے چارہ کیا فالتو چیز ہے کہ اس پر بات کرنے کے لیے ہر ایرا غیرا بلکہ نتھو خیرا بھی چلا آتا ہے۔
ہمارے بعض واٹس ایپ دانشوروں کو ایسا لگ رہا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز نے دیر کردی ہے۔ اب معاشرے کو بے حیائی کھا چکی ہے۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہمارا خیال ہے اور تجربہ بھی ہے، دیر کبھی نہیں ہوتی، خصوصاً درست سمت میں پہلا قدم مکمل اندھیرے کے باوجود اُمید کی کرن ثابت ہوتا ہے۔ بے حیائی ابھی اندر تک نہیں اُتری۔ شعوری طور پر نہیں چھا سکی، بلکہ میڈیا کے جبر کے نتیجے میں فیشن کے نام پر، آزادی اظہار یا آزادی افکار کے نام پر سرایت ضرور کرگئی ہے لیکن معاشرے کا غالب حصہ بے حیائی کو بے حیائی ہی سمجھتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بے ہودہ اشتہارات چل پڑتے ہیں تو جس کے ہاتھ میں ریموٹ ہوتا ہے وہ چینل بدل دیتا ہے یا بند کردیتا ہے، یہ کام صرف اپنے گھر والوں کے درمیان نہیں ہوتا۔ مہمانوں کے درمیان بھی ہوتا ہے، جس روز جسٹس شوکت عزیز نے ٹی وی چینلز پر اداکاراؤں کے مذہبی پروگراموں اور ٹی وی سرکس پر پابندی لگائی ہے اس دن سے معاشرے کے ہر طبقے کے افراد نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جو خواتین پردہ نہیں کرتیں اور جو مرد ڈاڑھی والے نہیں وہ بھی ایسے پروگرام کو نامناسب ہی سمجھتے ہیں۔ اب چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ہم برقعے کے حامی ہیں نہ عریانی کے۔ میں مولوی نہیں اور نہ مولویوں والا کلچر چاہتا ہوں۔ ہم لبرل ہیں لیکن مسلمان ہیں۔ اس قدر بے حیائی برداشت نہیں کرسکتے، انہوں نے یہ ریمارکس پاکستان فلم پروڈیوسرز، ڈراما آرٹسٹوں، اداکاروں وغیرہ کی درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔ درخواست گزار بھارتی مواد کے خلاف عدالت پہنچے تھے۔ ایسے ہی یاد آگیا۔ تحریک پاکستان کے زمانے کا واقعہ….. کسی نے شکوہ کیا کہ مسلمان ہو کر ہندو طوائف کے پاس کیوں جاتے ہو….. تو اس وقت کے لبرل مسلمان نے کہا کہ تمام مسلمان صرف مسلمان طوائفوں کے پاس جایا کریں۔ ارے جسٹس صاحب مسلمان صرف مسلمان ہے۔ کبھی مولوی کلچر کے قریب آکر دیکھیں۔ اور ہاں اسلام میں قرآن میں پردے کا حکم ہے اور بے حیائی کی مذمت بلکہ پھیلانے والوں کو سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔ ذرا غور فرمالیں۔