تاریخی رفعتوں سے بیگانہ لوگ 

421

دریا کے کنارے کھڑا بوڑھا سپاہی دھاڑیں مارمار کر رو رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’مئی کے مہینے میں ایسا بادوباراں، ایسی بارشیں میں نے کبھی نہیں دیکھیں‘‘۔ یہ سلطان کی تدفین کے آخری لمحات تھے۔ جنازہ محل سے برآمد ہوا تو انگریزوں نے شکست دینے کے باوجود نڈر اور بہادر حریف کو اس کے شایانِ شان خراج عقیدت پیش کیا۔ انگریز فوج کے چاق و چوبند سپاہی جنازے کے اطراف چل رہے تھے۔ راستے میں ہزاروں لوگ بلاتفریق ہندو اور مسلمان انتہائے غم میں آہ و زاری کررہے تھے۔ موسم خوفناک حد تک خراب، فضا نہایت بھیانک اور ڈراؤنی تھی۔ خوف کی وجہ سے آسمان کی طرف دیکھنا ممکن نہ تھا۔ جنازہ لال باغ پہنچا تو قلعہ سے ماتمی توپوں نے سلامی دی لیکن توپوں کی گھن گرج لوگوں کی آہ و بکا میں دب کررہ گئی۔ آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بجلیاں کڑک رہی تھیں۔ نماز جنازہ شروع ہوا، امام کے منہ سے ابھی اللہ اکبر ہی نکلا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آگرے گا۔ ایک ہیبت ناک کڑاکے کے ساتھ بجلی چمکی اور ایک قہر ناک روشنی سے سب کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ جسم لرز کر رہ گئے۔ آسمان اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ شیر میسور ٹیپو سلطان کے استقبال کی تیاری کر رہا تھا۔
سلطان ٹیپو کی سوانح منفرد ہے۔ صداقت شعار، سادہ اطوار، حلیم الطبع اور صاحب تدبیر۔ زمین پر کھدر بچھا کر سونے، خود کو عام آدمی سمجھنے، ہر وقت باوضو رہنے اور تلاوت قرآن کو معمول رکھنے والا۔ تعصب سے بھری قوم ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کرنے کا الزام سلطان پر لگاتی ہے مگر ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ثبوت ملتا ہے تو اس بات کا کہ سلطان ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفریق نہ کرتے تھے۔ 150مندروں کو سرکاری خزانے سے امداد ملتی تھی۔ ریاست میں شراب، نشہ آور چیزوں اور شادی بیاہ کی فضول رسموں پر پابندی تھی۔ عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں پر سلطان کو دسترس تھی۔ ہفت زباں حکمران۔ مطالعے کا شوقین۔ ذاتی کتب خانے میں کم و بیش دوہزار کتابیں۔ ہر وقت عوام کے معاملات پر توجہ۔ ریاست میں زمینداری ختم۔ زمین کاشت کاروں کو دیدی گئی۔ ریاست میں پہلی مرتبہ بینکوں کا قیام۔ میسور میں وہ خوشحالی تھی کہ ایک
انگریز نے دیکھی تو کہہ اٹھا: ’’میسور ہندوستان میں سب سے سرسبز علاقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے۔ میسور کے باشندے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔ اس کے برعکس انگریز مقبوضات صفحہ عالم پر بدنما دھبوں کی حیثیت رکھتی ہیں‘‘۔ نیپولین نے انگریزوں سے صلح کرلی تھی لیکن ٹیپو سلطان نے بخوشی شہادت قبول کی۔ جنگ کے ہنگام فرانسیسی آفیسر نے شکست دیکھی تو سلطان سے کہا کہ آپ پچھلی طرف سے نکل جائیے میں انگریزوں کو سنبھالتا ہوں۔ سلطان نے کمال دلیری سے وہ تاریخی جملہ کہا جو بہادروں کے طرز فکر کی علامت بن گیا۔ ایک آفاقی جملہ ایک آفاقی سچائی۔ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
سلطان ٹیپو کی زندگی کے تین اصول تھے۔ آزادی، تعمیرو ترقی اور مذہبی رواداری۔ وہ ہندوستانیوں کے لیے ایک ایسا رول ماڈل تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ آج کا ہندوستان ہر اُس فخر سے نفرت کا اظہار کررہا ہے جو مسلمانوں سے جڑا ہے۔ کئی برس پہلے 26جنوری بھارت کے یوم جمہوریہ کے دن دہلی میں عسکری پریڈ میں سابق میسور اور حالیہ کرناٹک کے ثقافتی ٹیبلو میں ٹیپو سلطان کا بڑا مجسمہ رکھا گیا جس میں وہ تلوار لہرا رہے تھے۔ مجسمے کے ساتھ سلطان کے سپاہی تھے جو اسی زمانے کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ ٹیبلو میں سلطان کا نشان شیر بھی موجود تھا۔ ٹیپو سلطان بطور ہیرو، ہندوؤں کی اکثریت کے لیے یہ ناقابل قبول تھا۔ پورا ہندوستان نفرت سے گونج اٹھا۔ میڈیا میں بحث چھڑگئی۔ نفرت اور غلاظت سے پُر بے ربط جملے اور بے معنی عبارتیں بڑھتے بڑھتے دل آزار بحث کی شکل اختیار کر گئیں۔ ٹوئٹر پر ایک طویل مناظرہ چھڑ گیا۔ ٹیپو سلطان کی وراثت کی بابت بے لگام لفظی جنگ گالم گلوچ تک جاپہنچی۔ ہندو تاریخ کی رفعتوں سے سر ٹکرا رہے تھے۔
کسی بھی دوسرے حکمران نے انگریزوں کو اتنا پریشان اور زچ نہیں کیا جتنا ٹیپو سلطان نے لیکن آج ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے اس عظیم مجاہد کی اولاد ہندوستان میں پریشانی، فاقہ کشی اور افلاس کا استعارہ ہے۔ سلطان کے خاندان میں کوئی رکشہ چلارہا ہے کوئی ڈھابہ اور کوئی دردر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ ہزار برس کی غلامی کا بدلہ چکاتے یہ منتقم مزاج ہندوسماج کا رویہ ہے۔ دیکھیں تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کا فیصلہ درست تھا کہ مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ قائد اعظم علیہ رحمہ نے فرمایا تھا: ’’ہندو اور مسلمان تاریخ کے جن سرچشموں سے قوت لیتے ہیں وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔ ان کے ہیرو الگ ہمارے ہیرو الگ ہیں۔ ان کا کیلنڈر الگ ہمارا کیلنڈر الگ۔ ان کی عبادات الگ ہماری الگ۔ وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں ہم گائے کھاتے ہیں‘‘۔ آزادی کے ستر برس بعد بھی کچھ نہیں بدلا آج بھی سب کچھ ایسا ہی ہے۔ پہلے سے کہیں بدتر۔
ان حقائق کے ادراک کے باوجود قائد اعظم علیہ رحمہ پاک بھارت دوستی چاہتے تھے کیوں کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے بغیر خطے کے لوگوں کی حالت نہیں بدل سکتی۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بھارتی فوج اور اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بھارتی میڈیا بھی پاکستان دشمنی میں دیوانہ ہوگیا ہے۔ برصغیر کے امن کی کلید کشمیر ہے۔ ستر برس ہونے کو آرہے ہیں اہل کشمیر کے لیے آزادی ایک خواب ہے۔ کئی عشروں سے کشمیر میں تحریک آزادی زوروں پر ہے۔ ظالم ہندوستانی سپاہ کے ہاتھوں لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ ان گنت عورتوں نے بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لی ہے۔ ہزاروں کشمیری بھارت کے اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا شکار ہیں۔ نوجوان ہیں کہ آگے بڑھ بڑھ کر بھارتی فوجوں کی بندوقوں کے سامنے اپنے جسم وجان کی پوری قوت سے کھڑے ہیں لیکن شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک دن کی سہی وہ شیر کی زندگی جینا چا ہتے ہیں شہید سلطان کی طرح۔
1929ء میں شاعر مشرق علامہ اقبال ٹیپو سلطان کے مزار میں داخل ہوئے تو تین گھنٹوں سے پہلے باہر نہ آسکے۔ باہر آئے توگریہ مسلسل سے آنکھیں سرخ تھیں۔ یہی شاعر مشرق علامہ اقبال تھے جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور ہم نے اس فکری محاذ پر وہ جنگ لڑی کہ دنیا کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ پاکستان کا قیام اس لیے ممکن ہوا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آسکے جو اسلامی تہذیب اور اسلامی تشخص پر اصرار کرتا ہو لیکن آج پاکستانی سماج بکھر رہا ہے۔ کیا ملک، کیا ریاست، کیا نظریہ۔ ہم نے اپنا سب کچھ فراموش کردیا ہے حتی کہ ہیروز بھی۔ ہماری نصابی کتب میں ٹیپو سلطان، محمود غزنوی، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور دیگر ہیروز کا ذکر خارج کردیا گیا ہے۔ دریا کے کنارے کھڑا بوڑھا آج بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔ 4مئی 1799ء ٹیپو سلطان کا یوم شہادت ہے۔ ہر سال 4مئی آتا ہے پاکستان کے کسی ٹی وی چینل کسی اخبار کو یاد نہیں رہتا۔ ہمارے آسمانوں پر اس بجلی نے کڑکنا بند کردیا ہے جو ٹیپوسلطان اور دوسرے مجاہدین کے جاہ و جلال سے معمور تھی۔ ہندوستانی تاریخ سے سر ٹکرا رہے ہیں لیکن ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنی تاریخ ہی فراموش کربیٹھے ہیں۔