بھارت کشمیر میں اندھیرے کا مسافر

330
Syed Arif Bahar سید عارف بہار
Syed Arif Bahar سید عارف بہار

کشمیر کا زخم رس رہا ہے اور وقت اور حالات کے ہرموڑ پر ایک حادثہ عوام کے لیے بانہیں کھولے تیار نظر آتا ہے۔ اس مستقل صورت حال نے سیبوں، گلاسوں، زعفران اور گلِ لالہ کی سرزمین وادی کشمیر کو حادثات، سانحات اور المیوں کی سرزمین بنا دیا ہے۔ ایک لہر سی اُٹھتی ہے اور پھر قبرستانوں، جنازہ گاہوں اور اسپتالوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں اور کان اگلے سانحے کی آہٹ پر لگ جاتے ہیں۔ وادی ابھی تک شہرہ آفاق پوسٹر بوائے برھان وانی کی شہادت کے حصار سے باہر نہیں نکل سکی اور یہ حادثہ ایک بڑے بھونچال کی صورت وادی کی معمول کی زندگی کو تلپٹ کر گیا مگر اس کے بعد کئی برھان آئے اور گئے اور ہر ایک کا جانا بھونچال زدہ وادی میں کسی آفٹر شاک سے کم نہ ہوا۔ 2015 میں وردی پوش بیس بائیس سال کے گیارہ خوبرو نوجوانوں کا ایک گروپ فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ وادی ہی نہیں بھارت کے اندر بھی اس تصویر کی دھوم مچ گئی اور یہ تصویر کشمیر کے سماج کو اپنے حصار میں لیتی چلی گئی۔ تصویر کے وائرل ہونے کے ایک سال بعد ہی اس کا مرکزی کردار برھان وانی شہید ہوا اور یکے بعد دیگرے تصویر میں موجود نو افراد مختلف واقعات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ چند دن قبل اس تصویر کا دسواں اور آخری کردا ر صدام پڈر بھی اپنی جان کھو بیٹھا تو اس کے بعد وادی میں ایک بار پھر خوفناک آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
صدام کے ساتھ کشمیر یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی پروفیسر رفیع بھٹ کی موت نے ایک نئی صورت حال کی نشاندہی کی۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالراور پروفیسر کا بندوق اُٹھانا بھارت کے پورے سماج کے لیے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ ایک اور سوال صدام پڈر کی نماز جنازہ کے موقعے پر اس کی والدہ کا فضاء میں گولی چلا کر لخت جگر کو سلامی پیش کرنا ہے۔ اب اگر ماؤں نے ماتم اور بین چھوڑ کر اپنے بچوں کی میتوں کو مسلح سلامی دینا شروع کی تو کشمیر میں دکھ، غصے اور کرب کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس ماحول میں بھارت میں جہاں رائے عامہ کا رنگ اور رخ تیزی سے فرقہ وارانہ ہوتا جا رہا ہے وہیں معقولیت اور اعتدال کی آوازیں بھی ڈوبتی اُبھرتی امید اور رجائیت کی ایک لکیر بناتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ امید کہ شاید بھارت میں معقولیت کا دائرہ ایک بار پھر وسیع ہوگا اور اس کے اثرات سے خطہ میں ناامیدی اور تاریکی کے سائے چھٹ جائیں گے۔
بھارت کے سابق اسپیشل سیکرٹری برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ اور تجزیہ نگار وپالا بالا چندرن بھی امید کی ایسی ہی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں جب کشمیر میں طاقت کے استعمال کو پہلا اور آخری آپشن سمجھ کر آزمایا جا رہا ہے مسٹر چندرن نے انڈین ایکسپریس میں ’’بلائنڈ ٹو دی ویلی‘‘ کے عنوان سے ایک چشم کشا مضمون لکھا ہے۔ مسٹر چندرن نے دلائل سے وادی میں بھارت کو ایک اندھا اور اس کے اقدامات کو ٹامک ٹوئیاں ثابت کیا ہے۔ گویا بھارت اپنی حکمت عملی اور ذہنیت کے لحاظ سے وادی میں اندھیرے کا مسافر بن کر رہ گیا ہے۔ مسٹر چندرن نے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں حالات کا غلط اندازہ لگا رہی ہے جس کی وجہ سے وہ بنیاد پرستی، شدت پسندی، عسکریت اور بغاوت میں فرق ملحوظ رکھنے سے قاصر ہے۔ مسٹر چندرن لکھتے ہیں کہ کسی اجتماع میں تشدد سے پاک تبلیغ وتقریر، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے بارے میں اظہار خیال امریکا اور برطانیہ میں قانونی طور پر جرم نہیں۔ برطانیہ پر مدتوں سے پرتشدد شدت پسندی کو برداشت کرنے کا الزام لگتا رہا ہے لیکن یہ سب سرگرمیاں بھارت میں جرم بن کر رہ گئی ہیں۔ دوسری طرف دہشت گردی اور بغاوت مذہبی اور سیاسی مقاصد کے لیے کی جاتی ہے۔ دہشت گردی غیر ملکی بھی ہوسکتی ہے اور مقامی بھی جبکہ باغی ہمیشہ مقامی ہوتا ہے اور اسے مقامی حمایت درکار ہوتی ہے۔ وہ مقامی کاز کے لیے لڑتا ہے۔ بغاوت اس وقت جنم لیتی ہے جب مقامی آبادی کا حصہ مرکزی دھارے کے خلاف اس کی حمایت کرتا ہے بھارت میں ماوسٹ بغاوت اس کی مثال ہے۔ مسٹر چندرن کے مطابق بغاوت اس وقت بھی جنم لیتی ہے جب غیر ملکی طاقتیں اسے کسی ملک کے اندر ہوا دیتی ہیں۔ قاری کو اس مقام تک پہنچانے کے بعد مسٹر چندرن براہ راست کشمیر کی تحریک پر آتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی تک وہ (کشمیری) ہمارے لوگ ہیں۔ جن کے ساتھ دہشت گردوں سے الگ سلوک کرنا چاہیے۔ تاریخ بتاتی کہ دہشت گردی (ٹیررازم) اور بغاوت (انسرجنسی) کی مختلف نوعیت کی تحریکوں کے بارے میں مختلف تدابیر کی جاتی رہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف وار آن ٹیرر اور داعش کے خلاف ایک حکمت عملی اپنائی گئی جبکہ تشدد آمیز بغاوت سے مذاکرات اور بحالی کے اقدامات سے نمٹا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کی تحریک کے حالیہ فیز کو1946 سے 1954 تک چلنے والی فلپائن کی سرخ تحریک ہکبالاہک، 1948 سے 1960 تک کی ملایا تحریک اور بھارت کی ماوسٹ تحریک جیسا کہا جاسکتا ہے۔ جولائی 2016 سے شروع ہونے والے فیز میں پولیس اور فوج درجنوں بغاوت مخالف آپریشن کرچکے ہیں۔ آئرش اور سکھ بغاوتیں بھی بیرونی مدد سے چلتی رہی ہیں ناگا بغاوت کو بھی ابتدا میں بیرونی حمایت حاصل رہی ہے۔ حکومت کے خلاف شدید جذبات انتظامیہ کی طرف سے عدم برداشت پر مبنی رویے، جبر اور بے عزتی کے واقعات ان بغاوت کی تحریکوں کو جلا بخشتے ہیں۔ بھارتی حکومت اس فرق کو سمجھنے سے قاصر ہے جبکہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اس فرق کو سمجھ کر سیاسی مذاکرات کی تجویز پیش کر چکی ہیں۔
مسٹر چندرن نے کشمیر کی تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 2017میں کشمیر کے ہکری پوری علاقے میں مقامی آبادی ایک آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز کا گھیراؤ کرنے گھروں سے نکل آئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان واقعات میں تیزی آتی چلی گئی۔ عوام کی حمایت کا یہ انداز دہشت گردی کا شکار ملکوں افغانستان، عراق اور شام میں دیکھا نہیں گیا۔ عوامی حمایت کے یہ مناظر اور مظاہر صرف فلسطین میں دیکھے جا رہے ہیں۔ بھارتی شہریوں کے ایک گروپ نے بی جے پی کے سینئر لیڈر یوشونت سنہا کی قیادت میں اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے وادی کے ان باسیوں کے ساتھ جو خود کو پاکستانی کٹھ پتلیاں قرار دینے پر آزردہ ہیں مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہی حالات کو دیکھتے ہوئے یشونت سنہا نے کہا تھا کہ ہم جذباتی طور کشمیر کو کھو چکے ہیں۔ مسٹر چندرن کے مطابق اسی صورت حال سے نکلنے کے لیے بھارتی حکومت نے سابق انٹیلی جنس افسر دینشور شرما کو نمائندہ مقررکیا۔ انٹیلی جنس افسر مسئلے کی ظاہری پرت کے حل کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مسٹر چندرن کشمیر کی صورت حال میں دینشور شرما کو موزوں شخص نہیں سمجھتے۔ اس کے بعد مسٹر چندرن نے کشمیر میں بھارتی فوج کے جانی نقصان کا گراف دیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ہر سال سیکورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ مثلاً2017 میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد 358 رہی جب کہ 2018 میں اپریل کے پہلے ہفتے تک چھیانوے بھارتی فوج ہلاک ہوئے۔ اس کے برعکس ماوسٹ باغیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد سال بہ سال کم ہوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت اپنے مذہبی اور نظریاتی جنون کی وجہ سے اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ وادی کے تمام مظاہرین کو پاکستانی کٹھ پتلیاں سمجھنے کی غلطی اور ناتجربہ کاری نے حالات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مضمون نگار نے بی جے پی کی حکومت کو مشور دیا ہے کہ وہ کشمیر پالیسی بناتے وقت اس مسئلے کی باریکیوں سے آگاہ پروفیشنلز سے بات کریں۔ اس کے لیے انہوں نے بھارتی آرمی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈاکی تجویز کا حوالہ دیا کہ علیحدگی پسند اور طلبہ مظاہرین آگے آئیں تاکہ ہم ایک حل تلاش کر سکیں۔ اسی طرح کشمیر پولیس ڈائریکٹر جنرل ایس پی وید نے بھی کہا ہے کہ پاکستان جیسے ہمسایوں سمیت تمام فریقوں سے مذاکرات ہی میں مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ اس طرح مضمون کے آخر میں مسٹر چندرن نے سہ فریقی مذاکرات کے تصور کی حمایت کرنے کی کوشش کی ہے جو حریت پسندوں کا مطالبہ بھی ہے یہ پاکستان کو باہر رکھ کر مذاکرات کرنے کی روایتی بھارتی سوچ کی نفی ہے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے انہوں نے فوج اور پولیس کی اعلیٰ قیادت کے خیالات کو تجربات کے نچوڑ کے طور پر پیش کیا ہے۔