جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا

447

اب تو خیر عورتیں اپنے شوہر کا نام بڑے شوق سے لیتی ہیں بلکہ جدید ایڈیشن کے میاں بیوی ایک دوسرے کو ’’یار‘‘ کہہ کر بھی مخاطب کرتے ہیں لیکن ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب عورتیں اپنے شوہر کا نام لینے سے شرماتی تھیں۔ انہیں بلانا ہوتا تو اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کی عرفیت سے شوہر کو مخاطب کرتیں۔ یہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک عورت کے شوہر کا نام رحمت اللہ تھا، نماز کے اختتام پر سلام پھیرتے ہوئے السلام وعلیکم و رحمتہ اللہ کہا جاتا ہے۔ وہ نیک بی بی اس مشکل میں تھی کہ نماز میں شوہر کا نام زبان پر کیسے لائے، اس نے اپنی ایک سہیلی سے اس اُلجھن کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ ’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے تم سلام پھیرتے وقت کہہ دیا کرو، السلام علیکم منے کے ابا، السلام علیکم منے کے ابا اللہ میاں تمہاری بات سمجھ جائیں گے اور نماز قبول کرلیں گے‘‘۔ اس طرح وہ نیک بی بی اپنے شوہر کا نام لینے کی گستاخی سے بچ گئی۔ یہ لطیفہ پرانا سہی لیکن ہمیں اس لیے یاد آیا کہ اس وقت ہمارے سیاسی لیڈر بھی کچھ ایسی ہی مشکل سے دوچار ہیں۔ میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور دیگر (ن) لیگی لیڈر دہائی دے رہے ہیں کہ ان کا مقابلہ زرداری یا نیازی سے نہیں خلائی مخلوق سے ہے جو انتخابات کرائے گی اور من مانے نتائج حاصل کرے گی۔ سب جانتے ہیں کہ خلائی مخلوق سے ان لیڈروں کی کیا مراد ہے لیکن وہ اس کا نام لینے سے کترا رہے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ لیڈر بھی مذکورہ نیک بی بی کی پیروی کرتے ہوئے خلائی مخلوق کو کسی عرفیت سے پکار سکتے ہیں۔ بات بھی بن جائے گی اور نام بھی افشا نہیں ہوگا۔ مثلاً میاں نواز شریف اپنے سیاسی حریف کو لاڈلا کہتے ہیں اور خلائی مخلوق کا تعلق اس سے جوڑتے ہیں، وہ خلائی مخلوق کو لاڈلے کا ابا قرار دے سکتے ہیں، ہم نے اپنے دوست کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ خلائی مخلوق محض ابا کا نام نہیں یہ پورا کنبہ ہے جسے محض ایک شخصیت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ (ن) لیگی لیڈر خلائی مخلوق کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں لیکن میڈیا کو ایسی کوئی مجبوری نہیں، وہ اسے اسٹیبلشمنٹ کا نام دیتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے مراد فوج لی جاتی ہے، فوج وہ ادارہ ہے جس پر ملک کے دفاع اور قومی سلامتی کی ذمے داری عاید ہوتی ہے، یہ ملک کا سب سے مضبوط اور منظم ادارہ ہے، اس کا کام سیاست کرنا یا ملک کا نظم و نسق چلانا نہیں بلکہ ملک کا دفاع کرنا اور اسے دشمنوں کی یلغار اور سازشوں سے بچانا ہے۔ آج اسے خلائی مخلوق کا نام دے کر اس پر طعنہ زنی کی جارہی ہے اور اس پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا جارہا ہے۔ یہ کام وہ لوگ کررہے ہیں جو خود فوج کی نرسری میں پرورش پا کر سیاستدان بنے ہیں، جو ہمیشہ فوج کی ڈکٹیشن پر کام کرتے رہے اور اس کے کہنے پر ملک میں سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے مرتکب ہوئے۔ کون نہیں جانتا کہ میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق کا لگایا ہوا سیاسی پودا ہیں جو اب ایک تناور درخت بن گیا ہے۔ انہوں نے اپنے مربی کی ہدایت پر اپنی ہی جماعت کے قائد محمد خان جونیجو کے خلاف بغاوت کی اور جونیجو کی مسلم لیگ کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بنا کر سیاست کا رُخ پھیر دیا۔ وہ ہر دور میں فوج کی سیاست کرتے رہے۔ ان دنوں پھر اصغر خان کیس کا چرچا ہے جس میں فوج پر الزام ہے کہ اس نے اپنے مطلب کا سیاسی اتحاد بنانے کے لیے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے تھے اور رقم وصول کرنے والوں میں میاں نواز شریف اور ان کے بھائی بھی شامل تھے۔ شریف برادران نے کبھی اس الزام کی تردید نہیں کی۔ میمو اسکینڈل تو حالیہ سیاسی دور کا واقعہ ہے جس میں میاں نواز شریف فوج کی ترجمانی کے لیے کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پیش ہوئے اور فوج کے حق میں وکالت کی۔
اب شریفوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے اس میں فوج یا خلائی مخلوق کا کیا دخل؟ کیا پاناما کیس فوج نے ان پر مسلط کیا تھا اور کیا فوج کے مشورے سے وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں طے کرنے کے بجائے عدالت میں لے گئے تھے، کیا عدالتی فیصلوں کے خلاف فوج انہیں اُکسا رہی ہے؟ کیا فوج نے ان سے کہا تھا کہ وہ احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ کے الزامات پر چپ سادھ لیں؟ میاں نواز شریف اس وقت شور مچارہے ہیں کہ انہیں جیل بھیجنے کی سرتوڑ کوشش ہورہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود جیل جانے پر تُلے ہوئے ہیں کہ وہ اسے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے اور ان کے ووٹ بٹورنے کا موثر حربہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر انتخابات میں اکثریت حاصل کرلیں گے۔ پھر وہ پارلیمنٹ سے نہ صرف اپنی تاحیات نااہلی ختم کرواسکیں گے بلکہ وہ اس ادارے کو بھی ختم کردیں گے جو ان کا احتساب کررہا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ ممکن ہوسکے گا؟ کیا میاں نواز شریف وقت کے پہیے کو ریورس گیئر لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ شاید ایسا نہ ہوسکے، میاں نواز شریف کے بارے میں عمومی تجزیہ یہی ہے کہ وہ مکافات عمل کا شکار ہوچکے ہیں اور انہوں نے ماضی میں جو کچھ بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں اس میں نہ کسی خلائی مخلوق کا کوئی دخل ہے نہ کسی اور ریاستی ادارے کا۔ البتہ وہ تدبر سے کام لیتے تو اپنی بدقسمتی کو لگام دے سکتے تھے اور اپنے زوال کی رفتار کو روک سکتے تھے لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ اس کی تازہ مثال ان کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے رسوائے زمانہ ممبئی حملہ کے بارے میں ڈان لیکس فیم رپورٹر کو دیا ہے اور گڑے مردے کو پھر اکھیڑنے کی کوشش کی ہے، اس طرح انہوں نے عملاً فوج کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے، حالاں کہ ممبئی حملے کے بارے میں سارے حقائق کھل کر سامنے آچکے ہیں اور خود بھارتی اور مغربی تجزیہ کاروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ مبینہ حملہ ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کا مشترکہ منصوبہ تھا جس کا مقصد پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حملے میں جو واحد دہشت گرد اجمل قصاب زندہ بچا تھا اس کے بارے میں بھارتی ذرائع کی مستند اطلاعات یہ ہیں کہ اسے واقعہ سے کئی ماہ پہلے ’’را‘‘ نے نیپال سے گرفتار کیا تھا اور اس نے جو اعترافی بیانات دیے وہ سب ’’را‘‘ کا رٹا رٹایا سبق تھا۔ میاں نواز شریف کے اس انٹرویو نے بھارت کو پاکستان کے خلاف ایک اور میڈیا وار کا موقع فراہم کردیا ہے۔
میاں نواز شریف اتنے بھولے نہیں ہیں کہ وہ ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی دانست میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، وہ اپنی بقا کی جنگ میں قومی سلامتی پر وار کرنے کو بھی جائز سمجھ رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے انٹرویو سے پاکستان بدنام ہوگا اس پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگے گا اور استعماری قوتیں اسے جواز بنا کر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی کوشش کریں گی، لیکن میاں صاحب کو اس سے کیا، خلائی مخلوق کے خلاف ان کا وار تو کارگر رہے گا اور اس کے بدلے میں انہیں بھارت اور امریکا کی ہمدردیاں تو حاصل ہوں گی۔ بعض اوقات آدمی کی چالاکی اور خود غرضی اسے عبرتناک انجام سے دوچار کردیتی ہے اور اسے اپنا بویا ہوا خود اپنے ہاتھ سے کاٹنا پڑتا ہے۔ میاں نواز شریف لاکھ خلائی مخلوق کو الزام دیں، انہوں نے جو کچھ بویا ہے اور جو بو رہے ہیں وہ انہیں کاٹنا تو پڑے گا۔