غدار غدار کے شور میں….. امت کا خسارہ

428

سب خوش ہیں….. کہ انہوں نے میاں نواز شریف کے غیر محتاط یا بالفاظ دیگر احمقانہ بیان پر بیانات کی توپیں داغ داغ کر انہیں خاموش کرایا۔ میاں صاحب خوش ہیں کہ انہوں نے خلائی مخلوق کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، خلائی مخلوق پریشان ہے۔ انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد کردیا۔ جس کی صدارت ان کے اپنے وزیراعظم نے کی تھی۔ یہ بات یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میاں صاحب نے ڈان کے رپورٹر سے جو باتیں کہیں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ باتیں حمید گل، جنرل پرویز مشرف، مشیر داخلہ رحمن ملک، عمران خان، جنرل اسد درانی، پیپلز پارٹی کے رہنما اور کئی سیاستدان کہہ چکے ہیں اور کوئی غدار قرار نہیں پایا۔ اس لیے کہ اس وقت ضرورت نہیں تھی اس قسم کے بیانات کا جواب نہ دینا ہی زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ تو پھر اس مرتبہ ایسا کیا کہا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں طوفان اٹھانا پڑا۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ یادیں تازہ کرنا ضروری ہیں۔ ایک دن اسلام آباد کی اہم شاہراہ دستور پر ایک اکیلے شخص سکندر بلوچ نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ قبضہ کرلیا تھا اور تاثر دے رہا تھا کہ وہ شخص ایک کلاشنکوف کے بل پر پوری پارلیمنٹ اپنی گاڑی میں رکھ کر لے جائے گا۔ چھ گھنٹے یہ تماشا ہوتا رہا۔ پاکستانی عوام یہ دیکھو وہ دیکھو میں لگے رہے۔ رات گیارہ بارہ بجے ڈراما ختم ہوا۔ اس کے بعد سب سونے چلے گئے کسی نے دوبارہ ٹی وی کھولا۔ یہ جاننے کے لیے نہیں کہ اور کیا ہورہا ہے۔ بلکہ یہ جانے کے لیے کہ کہیں سکندر بلوچ دوبارہ تو نہیں آگیا۔ اس دوران انہیں یہ پتا چلا کہ مصر میں جنرل سیسی کے جوانوں نے چار ہزار افراد کو ٹینکو تلے روند دیا اور ان کی لاشوں کو جلا بھی دیا ہے۔ امت مسلمہ کے دل پاکستان اور کراچی کے لوگ سوتے رہے۔ کیوں کہ انہیں چھ گھنٹے کا دوسرا ڈراما دکھا کر تھکا دیا گیا تھا۔ ہر لمحے ایسا لگتا تھا کہ اب سکندر بلوچ پکڑا جائے گا۔ مارا جائے گا۔ اس کے بچوں اور بیوی کا کیا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے اور کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ ایسے میں تھکے ماندے پاکستانی عوام کو امت مسلمہ کی فکر کیا ستاتی۔ بڑی مشکل سے اپنی پارلیمنٹ بچی تھی۔
بس یہی کچھ اس مرتبہ بھی ہوا۔ نواز شریف نے جو کچھ کہا بلکہ اس طرح نہیں کہا جس طرح تجزیہ نگار اور اختلاف کرنے والے بتارہے ہیں، بے وقت اور غیر ضروری کہا۔ لیکن اس پر جو ردعمل تھا اس کے شور میں ہم نے کیا کیا گنوادیا۔ کسی نے یہ بات تو نہ کی۔ یقیناًکچھ اہل دل ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارا ہی میڈیا ہمارا امت سے رشتہ کاٹ رہا ہے۔ جی۔۔۔ اس ہنگامے میں جس میں ٹاک شو نواز شریف کی مخالفت اور حمایت میں ہورہے ہیں۔ جن میں انہیں غدار اور محب وطن ثابت کیا جارہا ہے۔ لیکن اس شور کی ضرورت کیوں پڑی یہ شور کیوں اُٹھا۔ اس دوران دو بڑے واقعات ہوگئے لیکن اہل پاکستان نواز شریف اور خلائی مخلوق کے چکر میں پڑے رہے۔ امریکا نے اپنا سفارتخانہ القدس منتقل کرلیا۔ اس پر احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر درندگی کی انتہا کردی گئی۔ 62 فلسطینی شہید جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھے اور ڈھائی ہزار زخمی ہوگئے۔ لیکن پاکستان میں ہم سب نواز شریف کو غدار ثابت کررہے تھے۔ ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ یہ باتیں بہت سے دوسرے لوگ کہہ چکے ہیں نواز شریف نے کہہ دیں تو کیا ہوا۔ یہ قیامت کیوں اُٹھی، کس کے کہنے پر اتنا شور مچا، اس کا جتنا شور مچے گا نقصان پاک فوج کا ہوگا۔ میاں نواز شریف کی عقل کا ماتم بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماتم تو پاکستانی قوم کی عقل کا کرنا چاہیے۔ اس ہنگامے کے دوران کرنل جوزف بھی نکل گئے۔ دو دن قبل بڑے طمطراق سے یہ کہا گیا تھا بلکہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ایف آئی اے نے کرنل جوزف کو روک لیا۔ عدالت میں پیش ہونے کا راستہ بتایا۔ بغیر کاغذات نہیں جانے دیا گیا امریکی طیارہ چار گھنٹے انتظار کرکے چلا گیا۔ اس پر خوب تالیاں پیٹی گئیں لیکن یہ بات اس وقت بھی بڑے یقین سے کہی گئی کہ ایک دو دن میں راستہ نکال لیا جائے گا۔ اب آپ نواز شریف کو غدار کہیں یا محب وطن۔ امت مسلمہ منہ دیکھتی رہ گئی۔ اکثریت کو صبح پتا چلا کہ 62 فلسطینی شہید اور ڈھائی ہزار زخمی ہوگئے۔ اور پاکستان نوجوان کا قاتل امریکی کرنل جوزف اس طرح نکل گیا جس طرح دو دن قبل نکلنا چاہتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جس کے قبضے میں نور خان ائر پورٹ ہے۔ میاں نواز شریف؟ وزیراعظم؟ وزیر دفاع؟….خاموش….. اس طیارے کو پہلے کس نے نور خان ائرپورٹ پر اترنے دیا، دوبارہ کس نے آنے دیا۔ نواز شریف نے؟، پھر کون ہے وہ خلائی مخلوق، کس کا حکم دفتر خارجہ نے جاری کیا۔ اور کیا بھی یا نہیں ۔
کیا اب اسمبلی کا کوئی اجلاس ہوگا۔ جس میں سوالات اٹھیں گے یا اور اسمبلی….. بھی کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ یہ مقولہ بار بار نقل کیا جارہا ہے کہ اگر یہ جاننا ہو کہ کس ملک میں حکمران کون ہے تو یہ دیکھ لو کہ کس پر تنقید کرنا ممکن نہیں۔ کسی کا تبصرہ خوب ہے وفا کے نام پہ، ’’تم‘‘ کیوں سنبھل کر بیٹھ گئے (؟)۔۔۔ تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی۔