ملائیشیا کے مقبول ترین سیاسی رہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد نے 92 سال کی عمر میں ملائیشیا کے 7 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیا ہے انہوں نے نہ صرف سیاست سے اپنی ریٹائرمنٹ واپس لی بلکہ ملائیشیا کے عوام نے انہیں ایک بار پھر اپنے اعتماد سے نوازا ہے ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بیلٹ کے ذریعے اس سیاسی جماعت باریسان نیشنل کے 61سالہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا ہے، جو 1957ء میں ملائیشیا کی آزادی کے بعد سے اب تک ملک پر حکومت کر رہی تھی خود ڈاکٹر مہاتیر محمد 71سال تک اسی جماعت سے وابستہ رہے باریسان نیشنل ملائیشیا کی حقیقی مقتدر قوتوں کا سیاسی چہرہ بن چکی تھی باریسان نیشنل کی وجہ سے مہاتیر محمد طویل ترین مدت تک اقتدار میں رہے اور آج مہاتیر محمد کی وجہ سے باریسان نیشنل کے طویل ترین اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اس پر گہرائی سے غور کریں تو ہمارے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ نواز شریف اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ڈاکٹر مہا تیر محمد ان کے آئیڈیل سیاست دان ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی ڈاکٹر مہاتیر محمد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔
تسلیم کیا جاتا ہے کہ مہاتیر محمد آج کی دنیا کے بڑے سیاست دانوں، دانشوروں اور تیسری دنیا کے عوام کے ہیرو ہیں جب انہیں محسوس ہوا کہ ان کی سیاسی جماعت غلط لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ ملک کی خود مختاری کا سودا کر رہی ہے اور بدعنوانی نے اسے عوام کے لیے جنگ کے راستے سے ہٹا دیا ہے ملائیشیا کے عوام نے بریسان نیشنل پارٹی کو مسترد کرکے مہاتیر محمد ہی کا ساتھ دیا ان کی سیاست کی بنیاد یہی رہی کہ’’ صرف عوام پر بھروسا کیا جائے عوام ہی ہر کامیابی کا سرچشمہ ہیں۔ عوام کبھی دھوکا نہیں دیتے بشرطیکہ آپ انہیں دھوکا نہ دیں‘‘ ملائیشیا کی حقیقی ترقی اور جدید ملائیشیا کی تعمیر کا اصل دور وہی تھا، جب ڈاکٹر مہاتیر محمد وہاں کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے ملائیشیا میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے بڑے منصوبے مکمل کیے ڈاکٹر مہاتیر محمد نے نہ صرف اپنے ملک کی تعمیر کی بلکہ وہ عالمی رہنماتھے۔ انہوں نے حقیقی سیاسی اور معاشی خود مختاری کے لیے رہنما ئی کا کردار ادا کیا وہ آج بھی عالمی طاقتوں کی منفی فہرست میں شامل ہیں لیکن وہ
پھر عوام کی طاقت سے 92 سال کی عمر میں دوبارہ سیاسی جنم لے کر آ گئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کے کرپشن کے اسکینڈل کی وجہ سے اس سیاسی جماعت کی مقبولیت ختم ہو گئی۔ ’’ون ملائیشیا ڈویلپمنٹ برہارڈ‘‘ نامی منصوبے میں بڑے کرپشن اسکینڈل نے اس ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل کر دیا۔ اس کرپشن کیخلاف بوڑھے مہاتیر نے سڑکوں پر عوام کے احتجاج کی قیادت کی اپنے سابقہ سیاسی حریفوں کیساتھ سیاسی اتحاد بنا کر ملائیشیا کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہمارے ہاں بھی مسلم لیگ (ن) کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد اب نگران حکومت بننے والی ہے اور ملک میں سیاسی سرگرمیاں آئندہ انتخابات کے حوالے سے تیز ہورہی ہیں سابق وزیر اعظم نوازشریف پر کرپشن کے مختلف الزامات کے حوالے سے کیس نیب عدالت میں چل رہا ہے لیکن وہ عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ یہ سب محض الزامات ہیں حالاں کہ حقائق کچھ اور ہیں عوام بس بے وقوف بنتے چلے آرہے ہیں۔
دو ہفتے بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔ نئے انتخابات 60دن کے اندرکروانا ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 131ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی کا اعلان کر دیا ہے۔ خیبر پختوانخوا میں قومی اسمبلی کی 39نشستوں کے لیے 39اور صوبائی اسمبلی کی 99نشستوں کے لیے 99 ریٹرننگ آفیسرز ہوں گے۔ پنجاب کی 141قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں کے لیے 448ریٹرننگ آفیسرز تعینات ہوں گے۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61اور صوبائی اسمبلی کی 130نشستوں کے لیے 191یٹرننگ آفیسرز جبکہ بلوچستان قومی اسمبلی کی 16اور صوبائی اسمبلی کی 51نشستوں کے لیے 112 ریٹرننگ آفیسرز ہوں گے۔ اسی طرح اسلام آباد کی تین نشستوں کے لیے تین ریٹرنگ آفیسرز تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ووٹوں کے اندراج کا مرحلہ مکمل اور اب ان کی چھپائی کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ عام انتخابات کی خامیاں دُور کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں تین ہزار ماسٹر ٹرینرز تیار کیے جائیں گے جو آگے انتخابی عملے کی تربیت کریں گے چوں کہ الیکشن کا سیزن شروع ہوتے ہی سیاسی پرندے بھی اُڑانیں بھرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ ابتدا ن لیگ سے ہوئی نواز شریف نے مجھے کیوں نکال کا بیانیہ بدلتے ہوئے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ ن لیگ کا مقابلہ عمران اور زراداری سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے اُن کے اس بیانیہ کو منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ بیان جاری کر کے تقویت دی کہ الیکشن نگراں نہیں بلکہ خلائی مخلوق کرائیگی اب یہ الیکشن کمیشن کا امتحان ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 218کے تحت غیر جانبدار، منصفانہ اور آزاد انتخابات کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ گو اس کے ترجمان نے خلائی مخلوق کے وزیراعظم کے بیان کی سخت تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہائی اہم منصب پر بیٹھی شخصیت کو مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی بیانات سے گریز کرنا چاہئے الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 2018ء،220اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 10,9,8,6,5,4اور 11کے تحت اپنی آئینی اور قانونی ذمے داریوں میں مکمل آزاد ہے۔ لیکن افسوس کہ د و سال میں مستقل صوبائی کمشنرز تعینات نہیں کر سکا،اور ان پر گریڈ 21کے بجائے گریڈ 20کے آفیسرز کام کر رہے ہیں۔
ماضی میں ایسے حالات اور واقعات رونما ہوچکے ہیں اور پاکستان میں آج تک ہونیوالے انتخابات کے بعد دھاندلی کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں، 1970ء کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ بڑے غیر جانبدار تھے لیکن ان کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو ملک دو لخت ہوگیا، پاکستان کے لیے یہ انتخابات بہت المناک ثابت ہوئے۔ 1977ء کے انتخابات کے نتائج کوحزب اختلاف کی 9 جماعتوں کے اتحاد نے مسترد کردیا تو مارشل لاء کی شکل میں نتائج سامنے آئے 1988ء کے انتخابات کے بعد پی پی کونادیدہ قوتوں نے پنجاب میں حکومت بنانے سے محروم رکھا اور نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنایا اور مرکز میں بینظیر بھٹو کی حکومت صرف 18مہینے چل سکی۔ اکتوبر 1990ء انتخابات کے وقت بینظیر کو شکست دینے کے لیے آئی جے آئی بنوائی گئی اور آج اصغر خان کیس میں یہ کردار ثابت ہوچکا ہے پھر فروری 1997ء میں عام انتخابات کے بعد نوازشریف دو تہائی اکثریت حاصل کر کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن وہ فوج ککے ساتھ محاذ آرائی سے باز نہ آئے اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے حوالے سے بھی دھاندلی کی آوازیں اب تک سنائی دے رہی ہیں۔ اب جولائی2018ء کو نئے انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ گو اب حالات بہت بدل چکے ہیں لیکن ان کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ان خدشات کو دور کرنا اور لوگوں کا ان کے ووٹ کے حق کی صحیح معنوں میں حفاظت کرنا خود مختار الیکشن کمیشن کا سب سے بڑاچیلنج ہے۔