سوشل میڈیا کی بہت سی قباحتوں میں سے ایک سیلفی ہے۔ جب سے موبائل فونز میں خود اپنی تصویر لینے کا آپشن اور پھر اسے نمائش کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا رواج عام ہوا سیلفی کی اصطلاح بھی عام ہوئی اور اس کے استعمال نے بھی جنون کی شکل اختیار کر لی۔ اظہار ذات اگرچہ انسان کی جبلت میں ہے مگر سیلفی کے ذریعے اظہار ذات کا شوق اور رجحان دنیا بھر میں کئی خونیں واقعات کو جنم دینے کا باعث بنا ہے۔ آئے روز دنیا کے کسی کونے میں سیلفی لیتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے ٹرین کی زد میں آنے، کسی ساحل پر مگرمچھ کے جبڑوں میں پھنس جانے اور کسی جنگلی جانور کے پیٹ کا ایندھن بن جانے اور پاؤں پھسل کر کسی دریا، کھائی یا گلیشیر کی نذر ہونے کی خبر سامنے آتی ہے۔ اظہار ذات اور نمائش کی خاطر ذرا سی بے احتیاطی خونیں حادثے پر منتج ہوتی ہے۔ چند دن قبل ایک ایسی ہی سیلفی کے دوران اجتماعی لاپروائی نے ملک کو ہلا اور رلا کر رکھ دیا۔ اٹھتی اور نوخیز جوانیاں آن واحد میں پانی کی موجوں میں بہتی چلی گئیں اور ان کے ساتھی حسرت اور بے بسی سے انہیں ڈوبتا دیکھتے رہ گئے۔
رمضان المبارک کی آمد سے قبل جہاں شادیاں نمٹانے کی رسم زوروں پر رہتی ہے وہیں گرم موسم میں سیاحت کا شوق پورا کرنے کا رجحان بھی ایک لہر کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اس بار بھی رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ملک کے شمالی سیاحتی مقامات پر غیر معمولی رش کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہیں۔ آزادکشمیر کی خوب صورت وادی نیلم بھی ملک میں سیاحت کے لیے نو دریافت کردہ علاقوں میں سے ایک ہے جہاں جا کر سیاح اپنے آپ سے بیگانہ ہوجاتے ہیں۔ ملک کے کونے کو نے سے سیاح سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر اس وادی کے حسن کے جلوے دیکھ کر بے ساختہ کھنچے چلے آتے ہیں۔ اسی وادی میں جاگراں ہائیڈرل پروجیکٹ کے لیے مشہور نالہ جاگراں پر ایک کمزور سے پل پر تصویریں بنوانے کی کوشش نے خونیں سلفیوں کی تاریخ میں ایک اور روح فرسا واقعے کو جنم دیا۔ اس حادثے میں ابتدا میں پچیس کے قریب افراد کے بہہ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا تا رہا کچھ افراد کو مقامی لوگوں نے زندہ بچالیا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والے طلبہ وطالبات کا تعلق لاہور اور فیصل آباد کے تعلیمی اداروں سے تھا جب کہ کچھ مقامی افراد جو غالباً گائیڈ کے طور پر پل پر موجود تھے، بھی پانی کی شوریدہ سر موجوں میں بہہ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق لوہے کے زنگ آلود راڈز اور جستی چادروں سے بنا یہ پل بمشکل چند افراد کا بوجھ ہی سہار سکتا تھا مگر اس پل پر تصویریں بنوانے کے شوق میں پنتیس سے چالیس کے قریب طلبہ وطالبات کھڑے ہوگئے اور یوں وزن کے باعث پل ٹوٹ کر نالے میں گر گیا۔ کئی لاشوں کو نالے سے مقامی لوگوں نے فوراً ہی سے نکال لیا مگر کئی لاشیں بہہ کر دور دریائے نیلم اور اس سے بھی آگے دریائے جہلم کی طرف چلی گئیں۔ سوشل اور الیکٹرونک میڈیا امدادی سرگرمیوں کی تفصیلات وقفے وقفے سے بتاتا رہا۔ حکومت نے اس حادثے کی معلومات کے فوری طور پر کنٹرول روم قائم بھی کیا۔ آرمی چیف نے بھی اس حادثے کا نوٹس لیا اور نیوی کے غوطہ خوروں کی ٹیم کو جائے حادثہ پر لاشوں کی تلاش کے لیے بھیجا۔
وادی نیلم، ناران، کاغان، گلگت بلتستان میں سیاحوں کے ساتھ حادثات عام ہیں کیوں کہ میدانی علاقوں کے لوگ قدرت کے حسین نظاروں میں کھو کر حفاظت اور احتیاط سے غافل ہوجاتے ہیں۔ وادی نیلم ہی میں رواں سیزن میں یہ سیاحوں کے ساتھ پیش آنے والا اپنی نوعیت کا تیسرا حادثہ ہے۔ گزشتہ دو حادثات لینڈ سلائیڈز اور خراب موسم کی وجہ سے رونما ہوئے تھے۔ تازہ ترین حادثہ تعداد اور سنگینی کے اعتبار سے الگ ہے۔ اس میں نہ صرف درجن بھر جوان بچے اور بچیاں لقمہ اجل بن گئے بلکہ یہ سب سیلفیوں کے جان لیوا شوق کے باعث ہوا۔ ملک بھر میں اس وقت مری بائیکاٹ مہم زوروں پر ہے۔ سوشل میڈیا کی حد تک یہ مہم موثر ہے۔ بہت زیادہ نہ سہی لیکن سیاحوں کی کچھ نہ کچھ تعداد اس مہم سے متاثر ہو کر دوسرے علاقوں کا رخ کر رہی ہوگی۔ اس مہم کی ابتدا اور جواز کے لیے کئی طرح کی کہانیاں محو گردش ہیں مگر مری کے کاروباری لوگوں کا غیر کاروباری رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہاں کوئی سیاح غلطی کر بیٹھے تو پورا علاقہ، بازار اس پر پل پڑتا ہے۔ انہی رویوں سے ناراض اور نالاں سیاح سوات، گلگت بلتستان، ناران کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کا رخ بھی کررہے ہیں۔ جس سے ان علاقوں میں سیاحوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ سیاحوں اور مقامی انتظامیہ دونوں کو
اس طرح کے سنگین حادثات سے بچنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ خستہ عمارتوں، شکستہ پلوں اور سلائیڈنگ ایریاز میں سیاحوں کو ہدایات اور راہنمائی پر مبنی سائن بورڈ نصب کرے۔ جاگراں کے گرنے والے پل پر کیا انتظامیہ نے سیاحوں کے لیے یہ ہدایت درج کی تھی کہ پل پر دو سے زیادہ افراد کا کھڑا ہونا خطرے کا باعث ہے؟۔ خیال تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والے پل پر ایسی کوئی ہدایت درج نہ ہوگی مگر حیرت اس وقت ہوئی جب محکمہ سیاحت کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک ایسے بورڈ کی تصویر ڈالی گئی جس پر سیاحوں کو پل پر چڑھنے کے حوالے سے واضح ہدایت درج تھی اس کے باجود ایک کمزور نمائشی پل پر درجنوں افراد کھڑے ہو کر سلفیاں بنوانے لگ گئے۔ سیاحوں کو معلومات اور راہنمائی جہاں سرکاری اداروں کی ذمے داری ہے وہیں اس معاملے میں ملک کے جنوبی اور میدان علاقوں سے آنے والے سیاحوں کی بھی کچھ ذمے داری ہے۔ وہ جس علاقے کا رخ کررہے ہیں انہیں اس علاقے کی موسمی اور جغرافیائی صورت حال کے بارے میں معلومات ساتھ رکھنی چاہئیں اور ہوسکے تو مقامی گائیڈ کو ساتھ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیلفیاں بنوانے کا جنون اور اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کا شوق آئے روز سیاحتی مقامات پر حادثوں کا باعث بنتا ہے۔ جاگراں نالے میں اس طرح کے حادثات عام ہیں۔ حکومت، انتظامیہ اور سیاحوں کو مل جل کر ان حادثات کی روک تھام کے لیے اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ محض شوق سیاحت اور ایک سیلفی کی خاطر قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں اور پیچھے رہ جانے والے درد کی آگ میں تاحیات جلتے رہتے ہیں۔