یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہم نے پاکستان اور بھارت میں تخلیق ہونے والے تفریحی مواد کے بارے میں شو بزنس کی ممتاز شخصیتوں کی آرا کے حوالے سے ایک کالم تحریر کیا تھا۔ اس کالم میں ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین کی رائے پیش کی گئی تھی جنہوں نے ایک انٹرویو میں صاف کہا تھا کہ پاکستان میں بننے والے ٹیلی ڈراموں کو خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ کالم میں ممتاز بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے تجزیے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس تجزیے میں شبانہ اعظمی نے کہا تھا کہ بھارتی فلموں میں موجود ’’آئٹم سانگ‘‘ عورت کی تذلیل اور عریانی و فحاشی کے سوا کچھ نہیں۔ کالم میں بھارت کی ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر کا ذکر تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ جدید موسیقی اور جدید گیت نہیں سنتیں کیوں کہ جدید گیت ’’عجیب و غریب‘‘ ہوتے ہیں۔ کالم میں معروف پشتو گلوکارہ نازیہ اقبال کی یہ رائے بھی موجود تھی کہ پاکستان کے پشتو گیت اور ان کی ویڈیوز فحش ہوتی ہیں۔ اب آپ اس سلسلے میں مزید چار آرا ملاحظہ فرمائیے۔
(1) بھارت کی ممتاز اداکارہ کنگنا رناوت نے کہا ہے کہ فلموں میں آئٹم سانگز پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ یہ فحاشی کو بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں بن سکتیں جو معاشرے اور بچوں کے لیے نقصان دہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ کل کو میری یا آپ کی بیٹی ہوگی تو کیا ہم چاہیں گے کہ وہ اس طرح کی چیزیں دیکھے۔
(ڈیلی ایکسپریس، کراچی۔ 6 اپریل 2018)
(2) پاکستان کے معروف رائٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور اداکار اے ڈی بلوچ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں تفریح کے نام پر فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ تہذیب و ثقافت سے دوری ڈرامے کے زوال کا سبب بنی۔
(روزنامہ جنگ، مڈویک میگزین۔ 8 اپریل 2018)
(3) ممتاز ڈراما نگار، ادیب اور اینکر انور مقصود نے کہا ہے کہ ٹیلی وژن چینلوں کے ’’مارننگ شوز‘‘ لوگوں کی اصلاح کے بجائے بھارتی گانوں، ڈانس اور اچھل کود کا مرکز بن گئے ہیں۔ چناں چہ میں نے مارننگ شوز دیکھنا بند کردیے ہیں۔
(ڈیلی دنیا کراچی۔ 11 اپریل 2018)
(4) اس حوالے سے پاکستان کی معروف مذہبی شخصیت اور معروف سیاست دان مولانا فضل الرحمن نے سوات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مغربی روشن خیالی منظور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عریانی و فحاشی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تنگ نظر اور انتہا پسند کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عریانی و بے حیائی کے خاتمے اور شراب کی محفلوں کو اجاڑنا چاہتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ تم تنگ نظر ہو۔ انہوں نے کہا کہ جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر مغرب کا فلسفہ حیات ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
(روزنامہ جسارت، کراچی۔ 16 اپریل 2018)
انسان جس شعبے سے وابستہ ہوتا ہے اور جس پیشے سے رزق کماتا ہے سرعام اس کی مذمت نہیں کرتا مگر تفریحی صنعت کے مواد کی خرابیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ڈراما نگار ہی نہیں اداکارائیں اور گلوکارائیں تک چیخ پڑی ہیں۔ کنگنا رناوت نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر انہیں عام فلموں میں کام نہ ملتا تو وہ فحش فلموں میں کام کرنے کی منصوبہ بندی کرچکی تھیں۔ اس بات سے یہ تلخ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کنگنا رناوت کی کوئی ’’اخلاقیات‘‘ ہی نہیں مگر جس اداکارہ کی کوئی اخلاقیات نہیں اسے بھی یہ فکر ہے کہ کل اس کے بیٹی ہوگی تو کیا وہ بھی ’’آئٹم سانگ‘‘ جیسی غلاظت دیکھے اور سنے گی؟۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں ہے۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا مرکز قرآن و سنت ہیں۔ قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے علما ہیں، ایک حدیث شریف میں رسول اکرمؐ نے علما کو انبیا کے وارث قرار دیا ہے۔ یعنی اسلامی معاشرے کی روحانی، اخلاقی اور علمی صحت کی حفاظت علما کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عریانی و فحاشی کے ہولناک مسئلے کے سلسلے میں مذہبی رہنماؤں کے فکر و عمل کو شبانہ اعظمی اور کنگنا رناوت نہیں حسینہ معین اور انور مقصود کے فکر و عمل سے ہزاروں گنا بلند ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے عریانی وفحاشی کے سلسلے میں جس طرح اداکارائیں، گلوکارائیں اور ڈراما نگار ’’گفتار کے غازی‘‘ کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اس طرح مولانا بھی صرف ’’گفتار کے غازی‘‘ کے کردار کو نبھانے کے لیے کوشاں ہیں اور بری طرح ناکام ہیں۔ اس دعوے کی ’’دلیل‘‘ یہ ہے کہ گفتار کے غازی کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جس مسئلے کو بڑا مسئلہ سمجھتا ہے اس پر گفتگوؤں اور بیانات کے انبار لگادے۔ اس حوالے سے مولانااور دیگر مذہبی رہنماؤں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انہوں نے گزشتہ دس برسوں میں عریانی و فحاشی پر دس بیانات بھی جاری نہیں کیے۔ بالفرض مولانا نے دس سال میں عریانی و فحاشی پر دس بیانات دیے ہوں گے تو کیا ایک سال میں کسی مسئلے پر ایک بیان دیتے تو مسئلہ ’’نمایاں‘‘ ہو جاتا ہے؟ ہماری ابلاغی دنیا بیانات کے سیلاب کی دنیا ہے۔ اس سیلاب میں ایک کیا دو چار بیانات کی حیثیت بھی کاغذ کی کشتی سے زیادہ نہیں اور کاغذ کی کشتی سے سیلاب سے عہدہ برآ ہونا ناممکن ہے۔
ہماری تاریخ میں علما اور مذہبی رہنما صرف گفتار کے غازی نہیں ہوتے وہ کردار کے غازی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں صرف ایک عالم نے اپنی فکر و عمل سے تاریخ کو بدلا ہے۔ امام غزالی صرف ایک عالم تھے مگر انہوں نے تن تنہا یونانی فلسفے کو تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بنادیا۔ مجدد الف ثانی بھی صرف ایک عالم تھے مگر انہوں نے ایک فرد کی حیثیت سے مغلیہ سلطنت کو چیلنج کرکے صحیح راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ شاہ ولی اللہ بھی صرف ایک عالم تھے مگر انہوں نے تن تنہا برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو بھی زندہ کیا اور مرہٹوں کی قوت کو بھی پاش پاش کردیا۔ مولانا مودودی بھی ایک عالم تھے مگر انہوں نے ایک فرد ہونے کے باوجود اپنی فکر و عمل سے پوری امت کے بیانیے یا Narrative کو بدل ڈالا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں علما اور مذہبی رہنماؤں کی کیا کمی ہے ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں والی صورت حال ہے مگر اس کے باوجود وہ جدیدیت کی یلغار کو کیا جدیدیت کی ایک شاخ یعنی عریانی و فحاشی کی پیش قدمی کو بھی نہیں روک پا رہے۔ یہاں تک کہ ان میں اس کی خواہش بھی موجود نظر نہیں آتی۔ آتی تو ملک میں اب تک عریانی و فحاشی کے حوالے سے سیکڑوں سیمینارز ہوچکے ہوتے۔ درجنوں جلسے، جلوس اور دھرنے منعقد ہوچکے ہوتے۔ مگر آپ گواہ ہیں کہ اس سلسلے میں ہر طرف سناٹے کا راج ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں جسمانی غذا تو صحت بخش چاہیے اور ہم جسمانی غذا میں ملاوٹ پر پریشان ہوجاتے ہیں مگر فلموں، ڈراموں اور جدید موسیقی کے ذریعے جو آلودہ ترین تفریحی غذا ہمیں فراہم ہورہی ہے اور جسے کروڑوں لوگ استعمال کرکے اپنی روحانی، اخلاقی، علمی، نفسیاتی اور جذباتی ہلاکت کا سامان کررہے ہیں اس پر علما اور مذہبی رہنما خاموش ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس سلسلے میں ’’حد‘‘ مقرر کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کررہے۔
آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم عریانی و فحاشی کے خلاف بات کرتے ہیں تو ہمیں تنگ نظر اور انتہا پسند کہا جاتا ہے۔ دین کے غلبے کی جدوجہد پھولوں پر کیٹ واک کا نام نہیں ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کو نمرود نے آگ میں جلانے کی سازش کی۔ سیدنا نوحؑ کی قوم آپؑ کو بوری میں بند کرکے مارتی یہاں تک کہ آپؑ بے ہوش ہوجاتے۔ سیدنا عیسیٰٓ کو یہودیوں نے اپنے تئیں سولی پر چڑھا دیا۔ آپؐ پر سفر طائف میں اتنا پتھراؤ ہوا کہ آپ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے اور غزوہ احد میں آپؐ کے دو دانت شہید ہوگئے۔ امام ابوحنیفہ پر جیل میں تشدد کیا گیا اور وہ جیل ہی میں شہید ہوگئے۔ مولانا مودودیؒ کو سزائے موت سنائی گئی، سید قطب کی سزائے موت پر عمل ہوا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علما اور مذہبی رہنماؤں نے دین کے غلبے کی جدوجہد میں ایسی کون سی تکلیف سہی ہے کہ انہیں انبیا کے وارثین میں شمار کیا جائے۔ آپ شاکی ہیں کہ عریانی و فحاشی کے خلاف بولنے پر تنگ نظری اور انتہا پسندی کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔ حضور اب تو شبانہ اعظمی اور کنگنا رناوت تک عریانی و فحاشی کے خلاف بول رہی ہیں اور انہیں زمانے کے تبصروں کا خوف نہیں۔ مولانا سمیت دیگرعلماء عریانی و فحاشی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور شراب کی محفلوں کو اجاڑنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نیک کام دو تین سال میں ایک بیان دے کر ہوگا؟ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر مغرب کا فلسفہ حیات قبول نہیں۔ حضور والا یہ زندگی ہے نکاح کی محفل نہیں جہاں صرف ’’قبول ہے‘‘ کہنے سے کام چل جائے یا ’’قبول نہیں‘‘ کہنے سے کہرام برپا ہوجائے۔ اسلام دنیا بدلنے کے لیے آیا ہے اور جن لوگوں کا اسلام دنیا نہ بدل رہا ہو بلکہ دنیا بدلنے کی تمنا کرتا ہوا بھی نظر نہ آرہا ہو تو ان کو سوچنا چاہیے کہ ان کا اسلام کیسا اسلام ہے؟ اقبال نے کہا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے