نواز شریف کا بیان‘ مسلم لیگ کا اضطراب

304

نواز شریف نے ایسا کیا کہہ دیا ہے کہ بہت شور مچا ہوا ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا‘ نواز شریف کے بیان پر غور سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے‘ آئین کا آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ: ’’ہر شہری مملکت کا وفادار رہے گا‘‘ ریاست کے ساتھ وفاداری ہر شہری پر لازم ہے یہ ذمے داری اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کوئی شہری سرکاری ملازم ہو‘ عوامی نمائندگی کے کسی عہدے پر ہو‘ یا رہا ہو‘ اب آئین کے اس آرٹیکل کی روشنی میں دیکھا جائے گا کہ نواز شریف نے کیا کہا؟ نواز شریف کے بیان پر مسلم لیگ (ن) میں بھی اضطراب بڑھا ہے‘ اور رائے تقسیم بھی ہوتی ہوئی نظر آئی ہے‘ کچھ ہامی ہیں اور کچھ چاہتے ہیں کہ بیانیہ تبدیل ہونا چاہیے کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاسی نظام کے لیے اختلاف رائے ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں معاملہ جہاں قومی سلامتی سے متعلق ہو‘ وہاں صرف ریاست کا مفاد دیکھا، سمجھا اور پرکھا
جاتا ہے اسی کی حفاظت کی جاتی ہے اور حفاظت کرنے کا عہد کیا جاتا ہے۔
نواز شریف کے ذہن میں ایک سوال اٹکا ہوا ہے وہ چاہتے ہیں کہ آئینی طور پر منتخب حکومت ملکی دفاع‘ معیشت‘ اندرونی اور بیرونی سلامتی کے محاذ پر فیصلوں کی مجاز ہے‘ اگر یہی بیانیہ ہے تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے‘ لیکن اگر یہ ہے کہ منتخب حکومت ریاست کے مفاد کا خیال نہ رکھے اور محض سفارت کاروں کی خواہش پر کام کرے تو یہ کسی طور قابل قبول نہیں‘ بہر حال ایک لکیر ہے اور کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے‘ ریڈ لائن کراس کرنا قانون اور آئین کو حرکت میں آنے کی دعوت دینا ہے‘ اب نواز شریف ہوں یا اور کوئی اور‘ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ذاتی خواہش کو ریاست کے مفاد پر مقدم رکھے‘ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ ماضی کی‘ جب نیو زلیکس پر سینیٹر پرویز رشید کو وزارت اطلاعات اور مشیر خارجہ طارق فاطمی دونوں کو اپنے اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے اس وقت کے پی آئی او راؤ تحسین بھی عہدے سے فارغ ہوئے‘ نیوز لیکس کا جھگڑا اس قدر بڑھا کہ نواز شریف بھی کسی حد تک اسی کا نشانہ بنے ہیں اب جب حکومت اور اسمبلیوں کی آئینی مدت کی تکمیل میں چند ہی دن باقی رہ گئے تھے، تو ایک بار پھر وہی ڈان لیکس‘ وہی میڈیا پرسن‘ اسے صحافی بالکل بھی نہیں کہا جاسکتا‘ ملتان میں نواز شریف کا انٹرویو کیا‘ انٹرویو ملتان میں کسی معروف جگہ نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے خانیوال روڈ پر ایک بڑے گھر کا انتخاب کیا گیا اور اس انٹرویو نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے‘ قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں ممبئی حملوں سے متعلق بیان اور الزامات کو متفقہ طور پر مسترد کیا گیا اور اسے گمراہ کن قرار دیا گیا اس پریس ریلیز کے مطابق انٹرویو کے مواد کو نشانہ بنایا گیا، جس کا مقصد شاید نوازشریف کو موقع فراہم کرنا تھا کہ وہ اپنے انٹرویو کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سامنے آنے والے موقف کی روشنی میں وضاحت کرسکیں لیکن نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر انٹرویو میں اپنائے جانے والے اپنے موقف پر ڈٹ گئے
باقی صفحہ9نمبر1
میاں منیر احمد
بلکہ انہوں نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ انہوں نے کیا ایسی غلط بات کہہ دی، جو اس سے پہلے بعض دیگر شخصیات نے نہیں کہی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد نوازشریف سے ملے اور پریس کانفرنس کی دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیراعظم کی پریس کانفرنس کو پی ٹی وی سمیت الیکٹرونک میڈیا نے کور نہیں کیا، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی پریس کانفرنس کو ریاستی چینل پی ٹی وی سمیت تمام الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے بلیک آوٹ کرنے پر مختلف حلقوں بالخصوص سفارتی حلقوں میں طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے اب مسلم لیگ میں شہباز شریف ہیں اور چودھری نثار علی خان‘ دونوں میں کتنا دم ہے کہ وہ نواز شریف کو اپنا بیانیہ واپس لینے پر مجبور کرسکیں‘ دونوں میں یہ دم نہیں ہے‘ نواز شریف کی میڈیا سے اس گفتگو میں خبر یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات میں ان کے مقابلے میں وہ ماحول نہ ہو جو حلقہ ایک سو بیس میں تھا‘ بیالیس امیدوار‘ اور پولنگ سے ایک روز قبل مسلم لیگ کے کارکن کہاں گئے‘ کون لے گیا‘ کیسے گئے کیسے واپس آئے یہ سب کچھ ابھی تک کسی کو علم نہیں تاہم نواز شریف کو جو کہنا تھا کہہ دیا اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نواز شریف اور ان کے بیانیہ کو آگے لے کر چلتی ہے یا اس کے ساتھ چلے گی۔