معاشیات اور انسانی رشتے

ہمارے قابل احترام ساتھی اور دانشور جناب شاہنواز فاروقی صاحب نے پچھلے اتوار کے کالم میں اوپر درج کیے گئے عنوان کے تحت معاشی سرگرمیوں، معاشی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں انسانی رشتوں پر پڑنے والے اثرات پر اظہار خیال کیا ہے جو فکر و نظر کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ’’پچھلی پانچ چھ دہائیوں میں مغربی فکر کے زیر اثر زندگی کی جو صورت پیدا ہوئی ہے اس نے انسان کی جدوجہد کے بنیادی مرکز کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، پہلے یہ مرکز مختلف تعلقات تھے اور اب معاشی زندگی یا معاشیات ہے۔ صنعتی زندگی جیسے جیسے پھیلا و اختیار کرتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ مرکز زیادہ پیچیدہ اور اہم ترین بنتا جارہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی زندگی کی نفسیاتی، جذباتی اور محسوساتی ضروریات تیزی سے بدل رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جو خوشی محبوب سے دیدار سے وابستہ تھی اب وہ خوشی جدید ترین ماڈل کی ٹویوٹا کار سے وابستہ ہوگئی ہے۔‘‘
اس کے بعد آگے چل کر فاروقی صاحب لکھتے ہیں، اگر آپ محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہم نے اوپر جدید دور کی جن نمایاں علامتوں کا ذکر کیا وہ سب کی سب معاشی زندگی کی ضروریات یا اس کا نتیجہ ہیں اور ہماری زندگی کا مرکزی حوالہ ہیں اور ہولناک بات یہ ہے کہ ہماری اپنی زندگی بھی ان کا حوالہ ہے یعنی ہم معاشیات میں ہیں اور معاشیات ہم میں ہے۔ یہ ہماری لیلیٰ ہے اور ہم سب اس کے مجنوں۔ اور کالم کو اس طرح ختم کیا ہے کہ موجودہ عہد نے انسان کی معاشی جدوجہد کو اتنا پھیلا دیا ہے کہ وہ انسان کے وقت کی سب سے بڑی قاتل بن گئی ہے۔ چناں چہ وہ وقت جو کبھی دوسری انسانی سرگرمیوں میں صرف ہوتا ہے ایسا صرف معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے۔
دل نہیں مانتا کہ محترم شاہنواز فاروقی کی تحریر پر رائے زنی کی جائے مگر اسے پڑھنے کے بعد بے ساختہ مختلف خیالات دماغ میں چبھنے لگے مثلاً پہلی بات تو یہ کہ دین اسلام میں معاشی جدوجہد یعنی کاروبار، تجارت اور ملازمت کی کیا حیثیت ہے قرآن شریف میں جگہ جگہ اللہ کا رزق تلاش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سورۃ جمعہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب جمعہ کی نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کرو تا کہ تم فلاح پاسکو۔ اسی طرح بخاری شریف میں نبیؐ کا ارشاد منقول ہے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی شخص نے نہیں کھایا۔ جب کہ ترمذی کی حدیث یہ ہے کہ سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ مولانا یوسف اصلاحی نے آداب زندگی میں تفصیل سے ایک باب کاروبار کے آداب پر تحریر کیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ کاروبار دلچسپی، محنت اور ایمانداری سے کیا جائے۔ دکان وقت پر کھولی جائے اور خریدار کو پورا حق دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین چند بنیادی ہدایتوں کے بعد معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اب آگے چلیں۔ تحریک اسلامی میں ایک نچلی سطح کے کارکن سے لے کر بلند ترین ذمے داریوں تک جو افراد منسلک ہیں اُن میں میرے خیال میں 95 فی صد کسی کاروبار، دکان، فیکٹری، ریسٹورنٹ، اسپتال، کلینک، لیبارٹری، ٹرانسپورٹ، پراپرٹی وغیرہ کے کام میں کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں لگے ہوئے ہیں اور دین کا کام بھی کررہے ہیں، باقی جو ہیں وہ پرائیویٹ یا سرکاری اداروں میں ملازم ہیں۔ جسارت اخبار مجھ تک اور آپ تک اسی وجہ سے پہنچ سکا ہے کہ چند افراد کی ایک ٹیم مخصوص معاشی سرگرمیوں میں کام انجام دے رہی ہے۔
دور نہ جائیے اپنا صبح کا ناشتہ دیکھ لیں۔ ہمارے اس ناشتے میں گندم کے کاشتکار، فلور مل کے ملازمین، ڈبل روٹی کی فیکٹری کے ملازمین، انڈے اور دودھ کے دکاندار کی محنت شامل ہے اور یہ سب لوگ کسی معاوضے کے لیے کام کررہے ہیں، ناشتہ کے بعد ہمارا مکان اس کی تعمیر، رنگ و روغن، فرنیچر، کچن کا سازوسامان، بجلی کے آلات، بچوں کی تعلیم، بیمار ہونے کی صورت میں ڈاکٹر اور اسپتال کی ضرورت، بس، ریل اور ہوائی جہاز کی سروس، موبائل کمپنیوں کی سروس، انٹرنیٹ کی سروس جو ہماری زندگی کو آسان بنارہی ہیں، کم از کم بنیادی ضرورتیں یعنی خوراک، لباس اور مکان یہ تمام کسی نہ کسی معاشی جدوجہد، معاشی سرگرمی کی مرہون منت ہیں۔
یہ معاملہ آج کا نہیں چودہ سو سال پہلے کے عرب کے معاشرے پر نظر ڈال لیں، اس وقت بنیادی طور پر دو ہی معاشی سرگرمیاں تھیں، کھیتی باڑی یا تجارت، نبی کریم ؐ کا سیدہ خدیجۃ اکبری کے ساتھ پہلا معاملہ یہی تو ہوا تھا کہ آپؐ، سیدہ خدیجہ کے تجارتی کام میں ساتھ ہوگئے تھے۔ اسی طرح بعض جلیل القدر صحابہ کرام جن کا تعلق مکہ سے تھا وہ بڑے بڑے کاروبار میں مصروف تھے۔ جن میں سیدنا عثمان غنیؓ شامل ہیں۔ مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات نمایاں ہوگئی ہے کہ معاشی سرگرمی یا معاشی جدوجہد خود کوئی بری چیز نہیں اور ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے اور ہماری زندگی کا بڑی حد تک انحصار انہی معاشی سرگرمیوں پر ہے۔
لیکن یہ بات کہ ہمارے معاشرے میں معاشی، معاشرتی اور سماجی حوالوں سے واضح تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ان کا تعلق ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی سے ہے۔ یہ بات صحیح ہے لیکن اس کی وجوہ کثیر گروہی (Multi factonal) ہیں۔ اس کی تفصیلی وضاحت آئندہ کالم میں کی جائے گی۔