امت مسلمہ صرف باتیں کرتی رہے گی؟؟

287

بھارت نے کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کردیا۔ پاکستان نے اس پر احتجاج کیا کشمیریوں نے مودی کی آمد پر ہڑتال کردی سیاہ پرچموں سے استقبال کیا۔ حریت کانفرنس کے قائدین کو اس کی پاداش میں گرفتار کرلیاگیا۔ پاکستان نے بھی اتنا کہا ہے کہ عالمی بینک نوٹس لے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے شکوہ کیا ہے کہ باہمی مذاکرات اور عالمی بینک کی ثالثی کے باوجود بھارت نے تعمیرات جاری رکھیں اور تنازع حل کیے بغیر منصوبے کا افتتاح کردیا۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے عالمی بینک پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ معاہدے کے نگہبان کے طور پر پاکستان کے تحفظات دور کرائے۔ لیکن مطالبات، نوٹس لینے اور احتجاج سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو روز قبل اسلامی ممالک کے سربراہوں نے ترکی میں بڑی زوردار تقریریں کرکے یہ اعلان کیا کہ بیت المقدس کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ او آئی سی کے اعلامیے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ امریکی ایما پر اسرائیلی افواج جنگی جرائم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ سفارتخانے کی منتقلی غیر قانونی اور مجرمانہ فعل ہے۔ یہ اجلاس بھی صرف اجلاس کی حد تک رہا۔ گویا فلسطینیوں کی مدد اور القدس کے تحفظ کے لیے فوجی کارروائی تو ممکن نہیں۔ ورنہ او آئی سی کے اعلامیے میں یہ نہ کہا جاتا کہ ہر ممکن اقدام کریں گے۔ 34 ملکی فوج کیوں اور کیا کررہی ہے یہ الگ سوال ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف کشمیر اور القدس نہیں دنیا بھر میں ظلم و جبر کرنے والی قوتیں اور قانون ہاتھ میں لینے والے اپنا کام کیے چلے جاتے ہیں اور جن کے خلاف یہ کارروائی ہورہی ہوتی ہے وہ محض مطالبے احتجاج اور تشویش کے اظہار تک محدود رہتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا۔ ظالم کا ہاتھ کب تک نہیں روکا جائے گا۔ دنیا بھر کے وسائل میں اب بھی مسلمانوں کے پاس بڑا حصہ ہے۔ دنیا کی مضبوط افواج کے اعتبار سے بھی مسلمان ممالک کے پاس تعداد اور اسلحے کے اعتبار سے بھی مضبوط افواج ہیں۔ دنیا کی خطرناک ترین جنگیں لڑنے والی پاک فوج، دنیا کے خطرناک ترین میدانوں میں لڑنے والی ترک فوج، وسائل سے مالا مال سعودی فوج، مصری فوج، عراقی فوج۔ یہ سب ایک دوسرے کے سامنے ہی صف آرا رہتے ہیں۔ اتنی قوت رکھ کر بھی ہم صرف تشویش ظاہر کریں کہ اسرائیل فلاں کام غلط کررہا ہے۔ ارے اسرائیل کا وجود غیر قانونی، وہاں سفارتخانہ بنانا غیر قانونی، فلسطینیوں کا محاصرہ کرنا ان کے خلاف خوراک اور ادویات کی بندش غیر قانونی، تو پھر اسلامی ممالک کس قانون کی پابندی کررہے ہیں۔ یہی حال بھارت کا ہے کشمیر میں وہ ہر طرح کے غیر قانونی اقدامات کررہا ہے۔ جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے لیکن یہاں حالت وہی ہے کہ اب کی مار، تو منہ توڑ دیں گے، آنکھیں نکال لیں گے۔ بھارت نے کوئی دو چار ہفتے قبل کشن گنگا کی تعمیر نہیں شروع کی تھی گزشتہ کئی برس سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھارت پاکستان آنے والے دریاؤں پر 26 ڈیم بنارہا ہے بلا تخصیص سویلین اور فوجی سب ہی حکمران رہے ہیں کسی میں ہمت نہیں کہ بھارت کو روک لے۔ ہر حکومت نے بیانات ہی دیے ہیں ایک بار پھر بیانات تک بات رہے گی۔ اعلیٰ سطح کا وفد کشن گنگا کے مسئلے پر بات کرنے بلکہ شکایت کرنے واشنگٹن روانہ ہوگیا ہے لیکن اس کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں کو کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے کو بھی دہشت گردی قرار دینے لگے ہیں۔ وہ کیا بھارت کے ہاتھ روکیں گے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے جہاد کا علم تھاما اور جہاد کی پشت پناہی حکومتوں نے کی سارے ظالم اور دہشت گرد مذاکرات کی میز تک آئے۔فلسطین میں بھی یہی ہوا۔ بھارت کو لگام دینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے خلاف نبرد آزما مجاہدین کی کھل کر مدد کی جائے اور انہیں دہشت گرد قرار دینا چھوڑ دیا جائے۔ بھارت پاکستان کو چین کے ساتھ سی پیک کے راستے بنانے سے تو یہ کہہ کر روک رہا ہے کہ اس سے ہمارے مفادات پر زد پڑتی ہے اور پاکستان ان کی بات پر غور کرنے پر تیار ہے۔ لیکن کشن گنگا سمیت دیگر دریاؤں پر ڈیم بنانے سے پاکستان کے پانی کے وسائل خشک ہوجانے کی بات کون کرے گا۔ امت مسلمہ کو اب باتوں سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ باتوں باتوں میں اسرائیل نے مسلمانوں کا محاصرہ کررکھا ہے۔ امریکا نے سفارتخانہ منتقل کردیا ہے اور بھارت ڈیم پر ڈیم بنارہا ہے۔ تو پھر کیا فائدہ ایسی باتوں کا۔ جب مسلمان اسرائیل کے خلاف حماس کا ساتھ دے رہے تھے تو مشرق وسطیٰ امن مذاکرات، آزاد فلسطینی ریاست وغیرہ کے موضوعات پر مذاکرات شروع ہوگئے تھے۔ مذاکرات کا راستہ بھی جہاد کی راہ سے گزرتا ہے۔ باتیں چھوڑ کر عمل کرنا ہوگا۔ ورنہ یوں ہی پٹتے رہیں گے۔