انسان ہر لمحہ اللہ کی رحمت کا محتاج ہے۔ کوئی ذی روح اُس کی رحمت کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتا لیکن سال کا ایک ماہ وہ خاص ہے جب اُس ماہ کا ایک ایک لمحہ ہر مسلمان کے لیے دُنیا کی ہر نعمت سے قیمتی بن جاتا ہے۔ یہ خاص مہینہ مسلمانوں کے لیے رحمت مغفرت اور دوزخ سے نجات کی نوید مسرت لے کر آتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ نوید مسرت کے حصول کے لیے تیاری کی جائے، ورنہ رحمت کی بارش تو برسے گی لیکن روح اُسی طرح پیاسی کی پیاسی رہ جائے گی۔ رمضان کا مہینہ قرآن کے نزول کا مہینہ ہے۔ قرآن مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ہر انسان کے لیے رحمت ہی رحمت ہے۔ سراسر ہدایت ہے، حق اور باطل کا فرق واضح کردینے والی کتاب ہے۔ توحید کا کلمہ لاالٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ ہے اور قرآن اس
کلمہ کی تشریح ہے۔ قرآن جس لمحہ نازل ہوا رسول اللہؐ اُس لمحہ سے قرآن کو لوگوں تک پہنچانے اور اُس کے نفاذ کے راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے میں سرگرم ہوگئے اور زندگی کے آخری لمحہ تک اسی کام میں مصروف رہے۔ اُمت کی محبت سے سرشار ہمارے پیارے نبیؐ ہمارے لیے اسوۂ کامل ہیں۔
رسول اللہؐ نے اپنے اصحاب کے ساتھ دین کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا، انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں باطل کی قوت کا مقابلہ کیا جو سامان دُنیا کے سارے ہتھیاروں سے پوری طرح لیس تھی، ہر محاذ پر اُس کو شکست دی اور اللہ کی کبریائی کی آواز کو بلند کیا۔ قرآن بتاتا ہے کہ مومن کی تیاری اور تربیت کا مقصد ہی جہاد ہے، اور جہاد محض قتال کا نام نہیں بلکہ یہ غلبہ حق کے لیے موقع و محل کے مطابق جدوجہد ہے، یہ قلم سے بھی ہوتی ہے، مال اور زبان سے بھی اور تلوار اور ٹیکنالوجی سے بھی۔ جو لوگ کارگاہ زندگی کے ہر لمحے میں اس کے بارے میں سوچتے اور اہتمام کرتے ہیں اُن کا مددگار اور سرپرست اللہ ہوتا ہے اور وہ کیا ہی اچھا مولا اور کیا ہی اچھا سرپرست اور مددگار ہے۔
سورۂ محمدؐ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جمادے گا۔ اللہ کے کاموں میں اپنے آپ کو کھپا دینے والے یہاں تک کہ اپنی جانیں قربان کر ڈالنے والے شہید کہلاتے ہیں۔ شہید کے مقام کے بارے میں علم ہمیں احد میں شہید ہونے والے حضرت جابرؓ کے والد عبداللہ کی شہادت پر رسول اللہؐ کے ارشاد سے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ نے عبداللہؓ سے بالمشافہ کلام فرمایا اور پوچھا کہ تمہاری آرزو کیا ہے؟ (خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟)۔
شہید وفا کہتے ہیں کہ ’’میری آرزو ہے کہ مجھے دُنیا میں بھیج دیا جائے میں تیرے راستے میں لڑوں اور پھر شہید ہوجاؤں‘‘۔
ارشاد ہوا یہ میری سنت نہیں یہاں آنے والوں کو واپس نہیں بھیجا جاتا تو سیدنا عبداللہؓ نے اپنے گھر والوں کی تسلی کی درخواست کی اس پر سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 169 سے 171 تک نازل ہوئی۔ رسول اللہؐ نے ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ شہید کا یہ مقام ہے کہ وہ اپنے عزیز واقارب میں سے ستر افراد کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے کر جائے گا۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ رمضان اور رمضان میں قرآن کی محبت اُسی صورت میں آپ کو تبدیل کرے گی جب آپ اپنے عمل کی استقامت سے اُس کو ثابت کریں گے۔ روزہ گناہوں کے کفارے اور کوتاہیوں کی مغفرت کا کارگر وسیلہ ہے۔ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ پانچوں نمازیں، ایک جمعہ (کی نماز) دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک درمیان میں (واقع ہونے والے گناہوں) کا کفارہ ادا کرتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ کبائر گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ (مسلم)
روزے کی توفیق ملنے پر شکر گزاری لازم ہے۔ اللہ کے احسانات اور انعامات کو یاد کرکے اپنی کوتاہیوں کا اقرار کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے (خواب میں) اپنی اُمت کے ایک فرد کو دیکھا کہ وہ مارے پیاس کے ہانپ رہا ہے اور جب بھی وہ کسی حوض کے پاس جاتا ہے اس کو روک کر کھوپڑ دیا (ماربھگایا) جاتا ہے تب رمضان کے روزے آتے ہیں اور اس کو پانی پلا کر سیراب کرتے ہیں۔ (طبرانی)