خون کا تالاب

398

15 مئی 1948 یہودی وجود اسرائیل کے قیام کے خلاف اہل فلسطین تب سے اب تک اس دن کو یوم نکبہ، تباہی کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ 1948 کی جنگ کے نتیجے میں سات لا کھ فلسطینیوں کو جب نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سال مئی میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف یوم نکبہ سے ایک دن پہلے ہی اہل فلسطین برسر احتجاج آگئے۔ اسرائیل کے ساتھ نصب شدہ باڑھ کے قریب فلسطینی صبح سے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے جلد ہی جن کی تعداد نصف لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ احتجاج کرنے والوں میں 8ماہ کی دودھ پیتی بچی لیلیٰ بھی شامل تھی۔ اسرائیلی طیاروں نے اہل فلسطین کو سرحد سے دور رہنے کی وارننگ کے پمفلٹ گرائے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے اپنی فوج کو فلسطینی مظاہرین کو براہ راست نشانہ بنانے سمیت کسی بھی قیمت پر سرحد سے دور رکھنے کا حکم دے رکھا تھا۔ اہل فلسطین آگاہ تھے۔ اس کے باوجود لیلیٰ کی ماں اپنی شیر خوار بچی کو گھر پر چھوڑ کر صہیونی وجود کے خلاف احتجاج کرنے سرحد جا پہنچی۔ بچی کے بار بار رونے پر ماموں اسے ماں کے پاس لے گیا جہاں ایک ڈرون سے گرائے جانے والے آنسو گیس کے شیل سے لیلیٰ دم گھٹنے سے چل بسی۔ کچھ برس بعد لیلیٰ کو پتھر ہاتھ میں لیے صہیونی فوجیوں کے مقابل آکر شہید ہونا ہی تھا۔ غزہ کے بچوں کا یہی رنگ ہے، یہی ڈھنگ ہے یہی مقدر ہے۔ غزہ کے بچے موت سے نہیں ڈرتے۔ وہ موت کی آرزو کرتے ہیں اور اسی آرزو میں مرتے ہیں۔ لیلیٰ کو کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ لیلیٰ کو رخصت کرتے ہوئے اس کی ماں اس طرح رو رہی تھی کہ دیکھنے والوں کو کلیجہ شق ہورہا تھا۔ اس ماں کو کون سمجھائے جس کی گود کی گرمی بھی ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ شہیدوں کے جنازوں پر رویا نہیں جاتا شکر کیا جاتا ہے۔
دھوئیں اور شعلوں میں لپٹی ہوئی غزہ کی پٹی میں احتجاج کرنے والوں میں وہیل چیئر پر بیٹھا ٹانگوں سے معذور، و ہ فلسطینی بھی شامل تھا غربت کے دکھ جس کے چہرے سے عیاں تھے۔ لوہے کی باڑھ اور اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوجیوں کے سامنے وہ غصہ سے بھرا ڈٹا ہوا تھا۔ وہ اپنے جسم وجاں کی پوری توانائیوں کے ساتھ اسرائیلی درندوں پر سنگ باری کررہا تھا، اگرچہ تھوڑی دیر بعد ہی سنسناتی گولیوں اور جسم کو ریزہ ریزہ کردینے والے دھماکوں کی نذر ہوگیا۔ لیکن جیسے ہی اس کا ہمکتا خون مٹی پر گرا وہ مزاحمت کا ایسا استعارہ بن گیا جس کی مثالیں دی جائیں۔ اے کاش پاکستان پر حملہ کرنے والے امریکی ڈرونز اور ایبٹ آباد میں گھس آنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں پر ہماری افواج ایک پتھر ہی اس جذبے سے مار سکتیں۔ ستاون اسلامی ممالک کی افواج اور ان کے اسلحہ سے وہ پتھر زیادہ بھاری تھا جو شہید معذور فلسطینی کے ہاتھ میں تھا۔
قبلہ اول اب پونے دو ارب مسلمانوں اور ان کی افواج کا مسئلہ نہیں ہے اب یہ صرف دس لاکھ اہل غزہ کی مضطرب روحوں کی پکار ہے ان کا مسئلہ ہے۔ مصر سے سعودی عرب اور انڈونیشیا سے مراکش تک کوئی مسلمان ملک ان کا دوست نہیں۔ امریکا کو افغانستان میں پاکستانی قبائل کی مداخلت کی وجہ سے خطرہ ہوتو پاکستان اپنی افواج وزیرستا ن اور دیگر قبائلی علاقوں میں اتار دیتا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت خطرے میں ہوتو ایران ہزاروں جنگجو شام بھیج دیتا ہے۔ سعودی عرب حوثی قبائل کے خلاف حرکت میں آسکتا ہے۔ ترکی کردوں کے خلاف اپنی افواج شام اور عراق میں بھیج سکتا ہے لیکن جب قبلہ اول خطرے میں ہو۔ اسرائیل اہل فلسطین کا قتل عام کررہا ہوتب کسی اسلامی ملک کی فوج حرکت میں نہیں آتی۔ مصر کی سرحد جنوب میں غزہ سے ملتی ہے لیکن مصر نے عرصے سے یہ سرحد بند کررکھی ہے۔ کوئی مدد تو کجا دوا کی ایک گولی بھی مصر سے اہل غزہ کے لیے آجائے ممکن نہیں۔ غزہ کے مغرب میں سمندر ہے جہاں اسرائیل کی مکمل اجارہ داری ہے۔ مشرق اور شمال میں اسرائیل ہے۔ غزہ ایک بند پنجرہ ہے جس میں بیس لاکھ افراد زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہر طرف بیماریوں نے اہل غزہ کو گھیر رکھا ہے۔ خوراک کی شدید قلت ہے۔ آئے دن اسرائیلی حملوں میں اہل غزہ کی ہلاکتوں سے یہ جزیرہ ڈیڑھ سو مربع میل سے بھی کم رقبے پر مسلمانوں کے خون کا ایک ایسا تالاب ہے جس سے امریکا اور مغرب اپنی پیاس بجھا رہا ہے۔ ایک ہی دن میں اسرائیل نے تین ہزار فلسطینیوں کو زخمی اور ساٹھ کو شہید کردیا ہے۔ جس شرح سے اسرائیل اہل فلسطین کو شہید اور زخمی کررہا ہے اہل غزہ کچھ ہی عرصے میں ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔
فلسطینیوں پر حالیہ مظالم کی وجہ امریکا کے صدر ٹرمپ ہیں۔ انہوں نے منافقت کا وہ باریک سا پردہ چاک کردیا ہے جو مسلمانوں کے باب میں امریکی صدور کا شعار رہا ہے۔ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور پردہ داری کے ایسی پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں ایسے اقدام اٹھا رہے ہیں جن سے مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت اور تعصب عیاں ہے۔ اس معاملے میں وہ کسی تکلف کے روادار نہیں۔ امریکا کو اس معاملے میں بطور ثالث لیا جاتا رہا ہے حالاں کہ امریکا پہلے دن سے اس معاملے میں ایک فریق ہے۔ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کا افتتاح صدر ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے کیا ہے۔ ایوانکا ٹرمپ نے کہا: ’’امریکا کے 45ویں صدر کی جانب سے ہم آپ کو پہلی مرتبہ یروشلم میں امریکی سفارت خانے میں خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یا ہونے کہا: ’’آج تاریخ رقم ہورہی ہے۔‘‘ تاریخ یروشلم میں نہیں رقم ہورہی تھی۔ تاریخی واقعات اتنے عارضی نہیں ہوتے۔ جلد ہی اسرائیل اور امریکی سفارت خانہ ختم ہوجائے گا۔ القدس کو ایک خلیفہ نے فتح کیا تھا۔ دوسرے خلیفہ نے اسے آزاد کرایا تھا۔ تیسرے خلیفہ نے اس آزادی کی حفاظت کی تھی۔ اب ان شااللہ بہت جلد چوتھا خلیفہ اس کو پھر آزاد کر وائے گا۔ عن قریب۔ کوئی اس میں شک نہ کرے۔ تردد میں نہ پڑے۔
اقبال نے کہا تھا
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
نطق اعرابی آج کل امریکا کے پاس گروی ہے۔ وہ امریکا کی مرضی سے بولتا ہے یا پھر امریکا کی تعریف میں۔ ذہن ہندی کا کارنامہ ہے کہ کرنل جوزف اب ہم میں نہیں رہے۔ ایک شکوہ ترکمانی صدر رجب طیب اردوان کی صورت باقی ہے۔ عزت ایمانی اور حمیت ملی کے الفاظ ان پر اس طرح چسپاں ہوکر رہ گئے ہیں کہ کھر چو تو کھرچنا ممکن نہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں پہلے تو اسرائیل کی وحشت اور ظلم کو نشانہ تنقید بنایا۔ پھر اہل غزہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارت خانے کے یروشلم آجانے سے تاریخی حقائق مسخ نہیں کیے جاسکتے۔ القدس، مسجد اقصی اور فلسطین کل بھی آپ کا تھا اور آج بھی آپ کا ہے۔
امت مسلمہ کی افواج امت کی حفاظت کے لیے ہیں۔ اگر یہ افواج یہ فریضہ ادا نہیں کررہیں تو ان کا وجود ایک لعنت کے سوا کچھ نہیں۔ کشمیر سے فلسطین، روہنگیا سے شام اور یمن تک امت مسلمہ کی افواج یہ فرض ادا نہیں کررہیں۔ بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں نے پر امن احتجاج کیا۔ آزادی پر امن احتجاج سے حاصل نہیں ہوتی۔ آزادی جہاد سے حاصل ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کو کوئی اسلحہ دینے کے لیے تیار نہیں دوسرا المیہ یہ ہے کہ انہیں ایسی جغرافیائی حالت دی گئی ہے کہ وہ خود جہاد بھی نہیں کرسکتے۔ جہاد تو درکنار گوریلا کارروائی بھی نہیں کرسکتے۔ گوریلا کارروائی کی صورت میں ایک یہودی فوجی کے بدلے میں ایک ہزار فلسطینی مارے جاتے ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک کو آگے بڑھ کر انہیں مظالم سے نجات دلانا ہوگی۔ تاحال تو ایسا ممکن نہیں لیکن ان شااللہ وہ دن زیادہ دور نہیں۔