یہ64 لوگ کون تھے۔۔۔؟؟

343

حکومت کی جانب سے دعوؤں اور بعض نمائشی اقدامات، تصاویر کی اشاعت کے بعد خاموشی کو قیامت خیز گرمی نے توڑدیا۔ شہری اور صوبائی حکومت کی جانب سے گرمی کی لہر آنے سے قبل ہیٹ ویو کے کیمپ اور پانی کی سبیلوں کی تصاویر جاری ہوئیں اور پھر سب غائب ہوگئے۔ اب جب کہ حقیقی معنوں میں گرمی کی لہر آئی اور تین روز میں 64 سے زیادہ افراد سڑکوں پر اور گھروں میں گرمی کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے تو بیانات اور پھر اقدامات کی ہدایات کا شور مچے گا اور بس۔ لیکن تین روز میں 64 میتیں ایدھی سینٹر پہنچ گئیں۔ اس کا ایک اور حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا میں یہ خبر اس طرح سامنے آئی نہیں یا لائی نہیں گئی جس طرح تھر کے دو تین بچوں کی اموات کو اچھالا جاتا ہے۔ دوسری طرف شہر کے تمام بڑے اسپتالوں نے ہیٹ اسٹروک سے کسی ہلاکت کی تردید کرکے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ اگر یہ ہلاکتیں ہیٹ اسٹروک سے نہیں ہوئیں تو یہ کون لوگ ہیں جنہیں گولی بھی نہیں لگی اور کسی نے انہیں قتل بھی نہیں کیا ہے۔ یہ لاشیں لانڈھی، کورنگی، لیاری، نیو کراچی وغیرہ سے ہی کیوں آئی ہیں۔ اسپتالوں کے ترجمانوں نے تو یہ کہہ دیا کہ ہیٹ اسٹروک سے کوئی نہیں مرا۔ ایدھی ذرائع کہتے ہیں کہ تین روز میں آنے والی لاشوں کی تعداد معمول سے دوگنا زیادہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ نہ جانے کب ہوگا کہ یہ ہلاکتیں ہیٹ اسٹروک سے ہوئیں یا یہ لوگ بس خود بخود یونہی مرگئے۔ لیکن حکومتی ادارے یہ تو بتائیں کہ پانی کی سبیلیں سڑکوں پر پانی چھڑکنے کے انتظامات، بس اڈوں پر سایہ کہاں گیا۔ شاید ہمارے ذمے داران 2015ء کی طرح ایک ہزار سے زائد ہلاکتوں کے منتظر ہیں۔ اسپتالوں کی جانب سے تردید کے بعد تو ان کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے کہ اگر ہیٹ اسٹروک سے نہیں مرے تو یہ 64 لوگ کون ہیں کیسے مرے۔ اس کی اطلاع تو انہیں دینی ہے۔ ایدھی سینٹر کی رپورٹ کے بعد اگلے دن بھی سرد خانے لائی جانے والی میتوں کی تعداد معمول سے زیادہ تھی لیکن کوئی اسپتال یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان میں سے کوئی ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوا ہے۔ کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ سبزی منڈی میں پرویز نامی شخص کیا پھلوں کی قیمتیں سن کر مرگیا۔ ایمپریس مارکیٹ سے لایا جانے والا بوڑھا کیا اشیا کی قیمتوں کی وجہ سے مرگیا۔ ایسا تو نہیں ہوا ہوگا شہر کے ہر علاقے سے میتیں آرہی ہیں۔ بیشتر وہ لوگ ہیں جو غریب محنت کش ہیں گرمی ہو یا سردی انہیں روز کنواں کھودنا ہے روز پانی نکالنا ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ ایسی آفات کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومت اور اس کے اداروں نے صرف ایک اچھا کام کیا کہ کچھ امتحانات ملتوی کردیے تاکہ بچے گرمی کا شکار نہ ہوں۔ بہر حال یہ ایک درست اقدام تھا حکومتیں بھی کبھی کبھی درست کام کرلیتی ہیں ان کی تحسین ہونی چاہیے۔لیکن کراچی کے معروف سٹی اسکولوں کی چین تک شاید گرمی کی خبر نہیں پہنچی جہاں چھٹی نہیں ہوئی اور امتحان بھی لیا جارہاہے۔صرف امتحانات ملتوی کرنا کافی نہیں ابھی گرمی کی لہر 25 مئی تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہیٹ اسٹروک کے حوالے سے اپنے کیمپ دوبارہ آباد کرلے۔ اس کے علاوہ بلدیہ کراچی جس کے پاس اختیارات کی بہت کمی ہے وہ اپنے فائر بریگیڈ کے شعبے کو حرکت میں لائے اور بغیر کسی اختیار کے تمام گاڑیوں میں کسی بھی ہائیڈرنٹ سے پانی بھرواکر سارا دن شہر کی سڑکوں پر گشت کروائے۔ جہاں جہاں لوگ کھڑے ہوں یا سایہ نہ ہو وہاں پانی کا چھڑکاؤ کریں۔ بس اسٹاپ، بازار وغیرہ میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں تو اختیارات کا مسئلہ نہیں ہوگا۔