نگران وزیراعظم کی تلاش

328

قائد حزب اختلاف اور وزیراعظم پاکستان میں اب تک نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ اس ضمن میں 5 ملاقاتیں ہوچکی ہیں لیکن بے نتیجہ رہیں۔ ظاہر ہے کہ حکمران ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں ہی کسی ایسی شخصیت کو نگران وزیراعظم دیکھنا چاہیں گی جو ان کے مطلب کا ہو۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی کا مطلب الگ الگ ہوتا ہے اور کو شش یہ ہوتی ہے کہ اپنے فوائد حاصل کیے جائیں۔ ایسے میں کسی کو ملک اور قوم کے مفاد سے غرض نہیں ہوتی۔ لیکن جب سیاسی جماعتیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچتیں تو کوئی تیسری قوت مداخلت کرتی ہے اور سب کان دباکر اس کی بات مان لیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں صرف 7 دن رہ گئے ہیں۔ اگر کوئی فیصلہ نہیں ہوا تو پھر الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کسی جج یا بیورو کریٹ کو نگران وزیراعظم کا منصب دینے پر تیار نہیں ہیں۔ ججوں سے نواز شریف کی کٹی چل رہی ہے اور وہ کھلم کھلا محاذ آرائی پر اتاروہیں۔ اتفاق سے نیب کا چیئرمین بھی سابق جج ہے۔ ایسے میں نواز شریف کو یہ خدشہ تو رہے گا کہ اگر نگران وزیراعظم بھی کوئی سابق جج ہوا تو اس کا جھکاؤ بھی عدلیہ کے فیصلوں کی طرف ہوگا۔ دوسری طرف حزب اختلاف پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ کوئی سابق سرکاری افسر نگران وزیراعظم بن جائے۔ ایسی صورت میں بھی غیر جانبداری کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر جانبداری ایک ایسا لفظ ہے جس کا عملاً کوئی وجود نہیں۔ ایسا کوئی انسان نہیں جس کا جھکاؤ کسی ایک طرف نہ ہو۔ البتہ یہ جھکاؤ کم و بیش ہوسکتا ہے۔ ایسا شخص تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اگر کوئی مقتدر طاقت، اسٹیبلشمنٹ یا بقول نواز شریف، خلائی مخلوق بھی کسی کا انتخاب کرے گی تو اس میں وہ اپنا مفاد دیکھے گی۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام تجویز کیا تھا جن کی ہر پاکستانی عزت کرتا ہے اور سیاست میں ان کا کوئی واضح جھکاؤ بھی نہیں ہے بلکہ وہ اب تک سیاست سے دور ہی رہے ہیں۔ ان کو محسن پاکستان کہاجاتا ہے لیکن حکمران لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں ہی ان کے نام پر اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ دونوں کو غیر جانبدار شخص کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم نے کسی کے نام کا اعلان کرنے کے لیے دو روز کا وقت مانگا ہے۔ بصورت دیگر پارلیمان کی 8 رکنی کمیٹی فیصلہ کرے گی اور اس کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ حیرت ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کسی ایک فرد پر متفق نہیں ہوسکیں۔ جس کی بنیادی وجہ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اگر دونوں ہی ملک و قوم کے مفاد کو مد نظر رکھیں تو کام آسان ہوجائے گا۔ لیکن ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوگی کہ ایسا نگران وزیراعظم آئے جو عام انتخابات میں معاون ثابت ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی صاف، شفاف انتخابات نہیں ہوسکے۔ پیپلزپارٹی 2013ء کے انتخابات میں ہار گئی تھی اس لیے وہ ان انتخابات کو ’’انجینئرڈ‘‘ قرار دیتی ہے اور آئندہ بھی جو پارٹی انتخابات میں شکست سے دو چار ہوئی تو وہ یہی الزام لگائے گی۔ پاکستان میں جنرل یحییٰ کی قیادت میں 1970 کے انتخابات میں غیر جانبداری اور شفافیت کا اکثر چرچا کیا جاتا ہے لیکن ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے دھاندلی کی انتہا کردی تھی اور عینی شاہدین کا کہناہے کہ بارہ بارہ برس کے بچوں تک نے عوامی لیگ کے حق میں ووٹ ڈالا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بھاری اکثریت ملی اور اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا۔ مغربی پاکستان میں ایک نئی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اُدھر تم،اِدھر ہم کا نعرہ لگایا حالانکہ آئین اور قانون کے مطابق دونوں حصوں پر حکمرانی کا حق اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کا تھا۔ لیکن بھٹو صاحب حزب اختلاف میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے خواہ آدھا ملک ہاتھ سے جائے۔ بہر حال، پاکستان میں اقتدار کی سیاست میں کئی نشیب و فراز آتے رہے۔ 1976ء کے انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے اور عوام سڑکوں پر نکل آئے اور پھر ایک اور مارشل لا لگ گیا۔ ایسے پس منظر میں حزب اختلاف و اقتدار کو سنجیدگی سے نگران وزیراعظم کے نام پر غور و فکر کے بعد جلد از جلد متفق ہوجانا چاہیے ورنہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق وزیراعظم نے نواز شریف کو منانے کے لیے وقت مانگا ہے۔ وہ جانے کب وزیراعظم بنیں گے۔ اب تک نواز شریف ہی کو اپنا وزیراعظم سمجھے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک ہفتے کے لیے خود کو وزیراعظم سمجھ لیں اور اپنے طور پر فیصلہ کر ڈالیں۔ حکمران جماعت نے ناصر الملک، تصدق جیلانی اور شمشاد اختر کا نام تجویز کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ان میں سے تصدق جیلانی کے نام پر اتفاق کیا ہے تاہم پیپلزپارٹی نے ذکا اشرف اور جلیل عباس جیلانی کے نام دیے ہیں۔ عمران خان انتباہ کررہے ہیں کہ ’’سول حکومتیں فیل ہوتی ہیں تو فوج خلا پر کرنے آجاتی ہے‘‘ اس کی نوبت نہیں آنی چاہیے۔ شاہد خاقان عباسی کی قیام گاہ پر گزشتہ منگل کو خورشید شاہ اور وزیراعظم میں 30 منٹ کی خفیہ ملاقات بھی ہوئی ہے۔ خورشید شاہ کا شکوہ ہے کہ وزیراعظم اپنی بات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ خورشید شاہ کے بقول انہوں نے ایسے نام دیے جن پر کم سے کم اعتراض ہو۔ وزیراعظم کا کہناہے کہ ٹھیک ہے، میں اپنی قیادت سے دوبارہ بات کرتاہوں۔ اور یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ ان کی قیادت نواز شریف کے پاس ہے۔ اب ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ حزب اختلاف اور اقتدار کے مجوزہ نام ایک مٹکے میں ڈال کر خوب ہلائے جائیں اور پھر کسی بچے سے ایک پرچی نکلوالی جائے۔ جس کا قرعہ نکل آئے اس کے سر پر نگران وزیراعظم کا تاج رکھ دیا جائے ورنہ کوئی اتفاق ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اور ابھی تو نگران وزرا اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ بھی طے ہونا ہے۔ پوری قوم انتظار میں ہے کہ دیکھیں کس ’’قطرے‘‘ کی قسمت میں گوہر بنتا ہے۔