الیکشن 2018، بڑی پارٹیوں اور بڑے شہر کا امتحان 

430

محمد انور

قوی امکان ہے کہ ملک میں عام انتخابات شیڈول کے تحت جولائی کے آخری ہفتے میں کرادیے جائیں گے۔ خیال ہے کہ ان انتخابات کے نتائج بھی رائے عامہ کی توقعات یا پیش گوئی کے برعکس سامنے آئیں گے۔ جس کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا مثبت کردار بھی ہوگا۔ دیگر وجوہ میں سیاسی جماعتوں کا ماضی قریب کا رویہ بھی شامل ہوگا۔ خیال ہے کہ اس بار انتخابات کے نتائج پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے غیر معمولی طور پر تکلیف دہ نکل سکتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کے لیے بلاشرکت غیرے حکومت بنانے کے قابل ہوں۔ مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ انتخابات تاریخی طور پر شفاف اور منصفانہ ہوں گے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہر شخص کو بلا خوف آزادانہ ووٹ ڈالنے کا مثالی موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس بار انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ یا ’’خلائی مخلوق‘‘ کا مائنس کردار ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ ایسا ثابت کرنے کے لیے الیکشن کے انعقاد سے جڑا ہر ادارہ ابھی سے ’’مثالی انتخابات‘‘ کی تیاری میں لگا ہے۔ جس کے تحت ترجیحی بنیاد پر ووٹروں اور ووٹوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ کراچی سمیت پورے ملک میں کسی جماعت کو کسی قسم کی دھاندلی کرنے نہیں دی جائے گی بلکہ یہ انتخابات مکمل طور پر فوج کی نگرانی میں فوجی ساکھ کے مطابق کرائے جائیں گے۔
قوم ملک کی 71 سالہ تاریخ میں پہلی بار اس طرح کے منفرد انتخابات کے انعقاد کا منظر دیکھ سکے گی۔ ان مناظر کے ساتھ ہمیں جمہوریت کے تسلسل کے فائدے بھی نظر آئیں گے۔ ابھی ہم خوش فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب کے دارالحکومتوں پر راج کرنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز ان انتخابات میں حکومت سے باہر ہوجائے گی۔ یہ خوش فہمی اس لیے کی جاسکتی ہے کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں مکافات عمل سے گزر رہی ہیں۔
مسلم لیگ نواز سے روزانہ کی بنیاد پر اس کے رہنما علیحدہ ہورہے ہیں۔ جب کہ سندھ کے عام لوگوں کے ساتھ بڑے سندھی وڈیرے، زمیندار اور جاگیردار بھی آمرانہ ذہن کے پی پی پی رہنما کے طرز عمل سے مایوس ہوچکے ہیں۔ سندھ کے ضلع بدین سے تعلق رکھنے والی خاتون سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اپنے شوہر اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور بیٹے حسنین مرزا کے ساتھ پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرچکی ہیں۔ اس خاندان کی پیپلز پارٹی سے بغاوت کو بھٹو کی پارٹی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا تعلق سندھ کے سیاسی قاضی خاندان سے ہے جب کہ ان کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے دوست ہیں۔ یہ دونوں ڈاکٹر میاں بیوی بدین کی بااثر شخصیات کہلاتی ہیں۔ فہمیدہ مرزا بے نظیر بھٹو کی سہیلی بھی تھیں۔ دونوں نے بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی لیکن پارٹی کے آصف علی زرداری کے کنٹرول میں آنے کے بعد جون 2011 میں مرزا اور زرداری میں اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے جو اب 2018 میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا باعث بنے۔ اختلافات ختم نہ ہونے کی بنیادی وجہ بدین سے تعلق رکھنے والے تاجر اور آصف علی زرداری کے دیرینہ دوست انور مجید بتائے جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ سندھ میں اصل حکومت انور مجید ہی کی ہے جس کی وجہ انور مجید کے خاص دوست ہیں۔
پیپلز پارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے نظریے اور پارٹی کو آصف زرداری اور ان کے دوستوں سے شدید نقصان پہنچا۔ ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کی علیحدگی سے پیپلز پارٹی عام انتخابات کے ذریعے ’’بدین بدر‘‘ ہوسکتی ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے رہنما و سابق صوبائی وزیر پیر مظہرالحق بھی پی پی پی کو خیرباد کہہ سکتے ہیں کیوں کہ فہمیدہ مرزا اور پیر مظہرالحق قریبی رشتے دار بھی ہیں۔ دادو سے سابق وزیر اعلیٰ لیاقت علی جتوئی کی تحریک انصاف میں شمولیت کی وجہ سے ان کی انتخابات میں کامیابی کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ سے توقعات کے مطابق اس بار نشستیں ملنے کے امکانات کم ہیں جس کی وجہ پارٹی کی اصل قیادت کا غیرسیاسی رویہ بتایا جاتا ہے۔
عام انتخابات میں کامیابی کے لیے اگرچہ نواز شریف کی مسلم لیگ میں بھی مایوسی نظر آرہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کراچی سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ جہاں پہلے ہی سے پیپلز پارٹی تحریک انصاف، ایم ایم اے، ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی انتخابات میں کامیابی کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔
جولائی میں ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم ہوں گے کہ ان الیکشن کے ذریعے کراچی کس کا ہے یہ فیصلہ ہوگا۔ چوں کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اس بار انتخابات انتہائی سخت ماحول میں اور منصفانہ ہوں گے اس لیے اس بات کے امکانات ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں سب ہی معروف جماعتوں کو اس کی محنت کے مطابق پھل مل جائے گا۔ لیکن جو جماعتیں کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہیں نکال سکے گی ان کی بقاء کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ کراچی کے لوگوں کی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے دلچسپی ایم کیو ایم اور اس کی باغی جماعتوں سے ہوگی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان ہی کو ووٹ دیں گے۔ خیال ہے کہ اس بار کراچی کے شہری بہت سوچ سمجھ کر اس پارٹی کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں گے جو ہر صورت میں صرف اللہ کی رضا کے لیے اور عبادت سمجھ کر لوگوں کی خدمت کرتے رہتی ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتی ہے جس کے رہنماؤں اور کارکنوں پر کرپشن کے الزامات بھی نہیں ہیں اور جس نے اپنے تین ادوار میں کراچی کی خوب خدمت کی ہے۔ آج بھی لوگ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے کراچی کے دور کو یاد کرتے ہیں۔