پیسے کا کھیل

453

جمہوریت میں عوام کے حقوق کی پاسداری! ایک فریب، پتھروں پہ پڑی مٹی، جسے حقائق کی ہلکی سی بارش بہالے جائے۔
اصغر خان کیس ایک بار پھر سیاسی رشوت دینے اور لینے والوں کے درپے ہے۔ 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل اور انتخابات میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ائر فورس کے سابق سربراہ اور تحریک استقلال کے صدر اصغر خان مرحوم نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔ اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کے تفصیلی فیصلے میں 1990 کے انتخابات میں سابق صدر غلام اسحاق خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی طرف سے ایوانِ صدر میں سیاسی سیل کے قیام اور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو رقوم دینے کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام اور اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک بینک سے چودہ کروڑ روپے حاصل کیے گئے تھے جس میں آدھی سے زاید رقم مختلف سیاست دانوں اور جماعتوں میں بانٹ دی گئی۔ 56 سے زاید شخصیات تھیں جنہیں ادائیگیاں کی گئیں۔ اصغر خان کیس پر مختلف زاویوں سے گفتگو جاری ہے۔ اہلِ فکرو نظر اس بنیادی سوال پر متفکر ہیں کہ ایک ایسی جمہوریت میں کیا ہم اپنی زندگیوں کو بدلنے پر قادر ہو سکتے ہیں جس میں تاریخ اور تقدیر کو بنانے اور موڑنے میں پیسے کا کردار بنیادی، بہت گہرا اور ہمہ گیر ہے۔
پاکستان میں جمہوریت میں پیسے کا ناروا کردار کچھ 1990 کے الیکشن سے مخصوص نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ الیکشن لڑوانے اور جتوانے میں قانون شکنی کہیں یا اختیار سے تجاوز، جمہوریت میں پیسے کے سوا کوئی اور چیز بنیادی ستون نہیں۔ ستم در ستم یہ مسئلہ صرف پاکستان کے جمہوری نظام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر جمہوریت کا حصّہ ہے۔ امریکا میں بھی بااندازِ دیگر یہی ہوتا ہے۔
امریکا میں جو امیدوار صدارتی الیکشن کے لیے کھڑا ہوتا ہے اپنے الیکشن اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے عام لوگوں سے فنڈنگ کے ذریعے ایک مخصوص رقم جمع کرنی ہوتی ہے یہ فنڈز اکھٹا کرنے کے بعد اسے حکومتی خزانے سے انتخابی مہم چلانے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں۔ بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لیے چوں کہ ڈالر پانی کی طرح بہانا لازم ہے اس لیے امیدوار کو عام شہریوں کے علاوہ سرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ دار کمپنیاں اس بنیاد پر امیدوار کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد وہ نہ صرف ان کے مفادات کا تحفظ کرے گا بلکہ ان کے حق میں قانون سازی بھی کرے گا۔ ایک عام آدمی کے مقابلے میں ان بڑی بڑی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے پاس چوں کہ ڈالرز کے پہاڑ ہیں وہ جسے مالی سپورٹ کریں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ مگر قانونی طور پر رکاوٹ یہ تھی کہ بڑی بڑی کمپنیاں امیدوار کو براہِ راست رقُوم مہیا نہیں کرسکتی تھیں لیکن چند سال پہلے امریکی سپریم کورٹ نے یہ مشکل بھی حل کردی اور ایک فیصلے میں قرار دیا کہ بڑی بڑی کمپنیاں انتخابی مہم کے لیے کسی بھی امیدوار کو یا اپنے پسندیدہ امیدوار کو براہِ راست پیسہ دے سکتی ہیں۔ جواز یہ کہ جس طرح ایک فرد کو آزادی ہے اسی طرح بڑی بڑی کمپنیاں بھی یہ حق رکھتی ہیں کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو فنڈز دے سکیں۔ یوں امریکی جمہوریت میں پیسے کی عملداری اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے پیسے کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرلیا گیا ہے بلکہ اسے قانونی حیثیت بھی دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں تا حال قانونی طور پر یہ جرم ہے۔
جمہوریت میں ایوانِ اقتدار تک رسائی پیسے کا کرشمہ ہے۔ لوگوں کی، لوگوں کے لیے اور لوگوں پر مشتمل جمہوریت اگرچہ دنیا میں کبھی وجود نہیں پاسکی لیکن اب جمہوریت کا یہ تصور بھی فرسُودہ ہی نہیں بلکہ متروک ہو چکا ہے۔ 2012 کے امریکی انتخابات کے اعداد وشمار ہمیں دستیاب ہیں ان میں مختلف گروپوں نے ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کو چندہ میں جو رقم دی تھی وہ 36کروڑ 16لاکھ 38ہزار 9سو 28ڈالر ہے۔ 2012 کے امریکی انتخابات میں تشہیری مہم اور انتخابی دوروں میں 6ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کی گئی جس نے 32کروڑ امریکیوں کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت کے امریکی الیکشن میں صرف صدر اوباما اور مِٹ رومنی کے نام سامنے لائے گئے تھے حالاں کہ اور بھی امیدوار تھے لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ انتخابی مہم چلاسکیں امریکی میڈیا میں ان کا نام تک نہیں لیا گیا۔ یہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جمہوریت میں جس کے پاس پیسے ہوں گے صرف وہی انتخابات میں حصّہ لینے کا حقدار ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکنز دونوں امریکا کے مراعات یافتہ طبقوں کے مہروں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ مغربی جمہوریت عملی طور پر مراعات یافتہ طبقوں کی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے جو مٹھی بھر امیروں کو بہت زیادہ امیر اور غریبوں کی غربت میں بے پناہ اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔ امریکا میں جب جب کسانوں مزدوروں اور دانشوروں نے اپنی پارٹیاں بنائیں انہیں سرمایہ دار طبقے نے پنپنے نہیں دیا۔ امریکی جمہوریت وال اسٹریٹ اور پینٹاگون کے تابع ہے۔ ایک فی صد آبادی ملک کی ننانوے فی صد دولت پر قابض ہے اور اس کے بل بوتے امریکا پر حکومت کر رہی ہے جب وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک نے سر اٹھایا تو دھرنا دینے والوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور آنکھوں میں پچکاریوں سے پسی ہوئی مرچیں ڈال کر اندھا کر دیا گیا۔
پاکستان ہو امریکا یا کوئی اور ملک الیکشن مہم میں پیسے کا بے حد و حساب استعمال روکنا ممکن نہیں۔ پاکستان میں اسے بطورِ حقیقت تسلیم نہ کرتے ہوئے جمہوریت کو اصغر خان کیس میں بیان کی گئی بے قاعدگیوں اور سانحوں سے بچانے کے لیے کرپٹ افراد سے پاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ پیسے کا ناجائز استعمال اور کرپشن جمہوری نظام کا لازمی جز ہے۔ چند ماہ بعد ہونے والے الیکشن کے شفاف ہونے پر بھی بہت زور دیا جا رہا ہے۔ کیا شفاف انتخابات کا کوئی فائدہ عوام کو ہوگا۔ الیکشن شفاف ہوں یا غیر شفاف صرف وزیروں کے دن پھرتے ہیں۔ عوام کے نصیب میں وہی غربت اور افلاس رہتی ہے۔ پاکستان کو چھوڑیے جن ممالک میں شفاف الیکشن ہوتے ہیں ان کی بات کرلیتے ہیں کیا وہاں عوام کے مسائل حل ہو گئے یا ان میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں جمہوریت غریب محنت کش اور غربت کی لکیرکے نیچے غرق ہونے والے لوگوں کا ایک بنیادی مسئلہ بھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ پاکستان میں اگلے الیکشن شفاف ہوں یا غیر شفاف، نواز شریف کے جارحانہ بیانیہ کی جیت ہوتی ہے یا عمران خان کی تبدیلی کے دعووں کی، یا اصغر خان کیس جیسے علامتی مقدمے کے ذریعے اس جمہوری نظام کی اصلاح کی کوشش کی جائے، کامیابی اور فلاح ممکن نہیں۔ اللہ کرے پاکستان صدیوں قائم رہے لیکن اگر جمہوریت ہے، انسان کا بنایا ہوا نظام اور قوانین نافذ ہیں تب انسانیت کی نجات ممکن نہیں۔ نجات صرف اسلام کے نظام میں ہے جس کے ہم پلّہ کوئی دوسرا نظام نہیں۔