شرافت چھوڑ دی میں نے

693

رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں منافق کی پہچان واضح تھی۔ آپؐ جسے منافق کہہ دیتے وہ منافق کہلاتا لیکن رسول اکرمؐ کے بعد منافقوں کی پہچان مشکل ہوگئی۔ تاہم رسول اکرمؐ نے منافقوں کی ’’تشخیص‘‘ کے لیے ایک ’’پیمانہ‘‘ اُمت مسلمہ کو فراہم کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جھگڑا کرے تو گالی دے۔ بدقسمتی سے صرف میاں نواز شریف ہی نہیں ان کا پورا خاندان ان ’’صفات‘‘ کا حامل نظر آتا ہے۔
چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ ان کے اور شریف خاندان کے درمیان سیاسی معاہدہ ہوا تو شریف خاندان نے ان سے کچھ وعدے کیے اور شہباز شریف وعدوں کو قابل اعتبار بنانے کے لیے قرآن اُٹھا لائے اور کہا کہ آپ سے جو وعدہ کیا گیا ہے پورا کیا جائے گا یہ قرآن اس کا ضامن ہے۔ مگر چودھری شجاعت کے بقول اقتدار میں آنے کے بعد شریف خاندان نے اپنا کوئی وعدہ پورا نہ کیا۔ یعنی شریف خاندان نے معاہدے کے حوالے سے جھوٹ بھی بولا اور وعدہ خلافی بھی کی۔ یہاں تک کہ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس سلسلے میں قرآن کو ضامن بنایا گیا تھا۔ اب میاں صاحب اور پورا شریف خاندان پاناما لیکس اور دوسرے مقدمات کے حوالے سے دباؤ میں آیا ہے تو اس نے انصاف کے عمل کو جھگڑے کے عمل میں ڈھال لیا ہے اور شریف خاندان کے اکثر اراکین عدلیہ اور فوج کو گالیاں دے رہے ہیں۔ یہ تمام پہلو شریف خاندان کے بارے میں کیا بتارہے ہیں؟۔
میاں شہباز شریف میاں نواز شریف کے برادر خورد ہیں۔ انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے بلکہ وہ جھوٹ سے بنے ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کا حالیہ بیان ہے۔ جیو کی خبر کے مطابق اس بیان میں شہباز شریف نے فرمایا ہے کہ نواز شریف کا انٹرویو کرانے والا نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نواز شریف پر فخر ہے۔ اُن سے بڑا محب وطن کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بل کلنٹن نے میرے سامنے میاں نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے 5 ارب ڈالر دینے کی پیشکش کی مگر نواز شریف نے پیشکش مسترد کرکے دھماکے کردیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میاں نواز شریف سے کہیں گے کہ آئندہ وہ حساس معاملات پر بیان دینے سے قبل پارٹی سے مشاورت کرلیا کریں۔
ڈان کے انٹرویو میں نواز شریف نے پاکستان کو ممبئی دھماکوں کا ذمے دار قرار دیا اور ممبئی دھماکوں کے ذمے داروں کا مقدمہ ادھورا رہنے پر سوال اُٹھا کر غداری کا ارتکاب کیا تو شہباز شریف نے اپنے پہلے ردِعمل میں فرمایا کہ میاں نواز شریف کا انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ بات سفید جھوٹ سے بھی آگے کی چیز تھی اس لیے کہ خود میاں نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر مریم نواز نے اپنے بیانات کے ذریعے پوری دنیا کو بتایا کہ انٹرویو میں کچھ بھی غلط نہیں کہا گیا ہے۔ صحافت کا اصول یہ ہے کہ کوئی اخبار کسی کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کرے تو اخبار سے رابطہ کرکے احتجاج کیا جاتا ہے اور اس سے معذرت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اخبار معذرت نہ کرے تو اس کے خلاف دعویٰ دائر کرکے بڑی سے بڑی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر شریف خاندان کے کسی بھی رکن نے انٹرویو کرنے والے سرل المیڈا یا روزنامہ ڈان میں سے کسی کے ساتھ بھی رابطہ نہ کیا نہ ہی میاں نواز شریف یا شہباز شریف نے بیان کے ذریعے سرل المیڈا یا ڈان سے معذرت طلب کی۔ نہ صحافی یا اخبار کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف نے جو کہا وہی صحافی نے سنا اور وہی اخبار میں شائع ہوا۔ چناں چہ میاں نواز شریف کے انٹرویو کو توڑنے مروڑنے کی بات سفید جھوٹ سے بھی بڑی چیز تھی۔ مگر وہ ’’شریف‘‘ ہی کیا جو ایک جھوٹ کہہ کر رہ جائے۔ چناں چہ شہباز شریف نے انٹرویو کے حوالے سے دوسرا ’’جھوٹ‘‘ ایجاد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جس شخص نے میاں نواز شریف کا انٹرویو کرایا وہ میاں نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اپنے پہلے بیان میں اپنے بڑے بھائی کو بچانے کے لیے انٹرویو کو توڑنے مروڑنے کا ’’بوجھ‘‘ سرل المیڈا اور اخبار پر ڈالا۔ اب دوسرے بیان میں انہوں نے میاں نواز شریف کو بچانے
کے لیے انٹرویو کی ساری ذمے داری ’’انٹرویو کرانے والے‘‘ پر ڈال دی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح میاں شہباز شریف نے سرل المیڈا اور ڈان کے خلاف کچھ نہیں کہا اسی طرح انہوں نے انٹرویو کرانے والے کے خلاف بھی کچھ نہیں کہا بلکہ انہوں نے قوم کو اس بدبخت دشمن کا نام بھی نہیں بتایا جس نے انٹرویو کا اہتمام کرکے نواز شریف کو مشکل میں ڈالا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف دودھ پیتے بچے ہیں کہ کوئی شخص جب چاہے ان کا انٹرویو کرائے انہیں پھنسا دے اور ان سے وہ کچھ کہلوالے جو نواز شریف جیسا ’’معصوم‘‘ اور ’’بے زبان‘‘ شخص کہنا ہی نہیں چاہتا۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ جان جائے پر ایمان نہ جائے، مگر شریف خاندان کا اصول یہ ہے کہ جان بچ جائے خواہ ایمان چلا جائے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مسلمان سب کچھ کرسکتا ہے مگر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ مگر شہباز شریف ’’بھائی جان‘‘ کی ’’سیاسی زندگی‘‘ بچانے کے لیے ایسے جھوٹ ایجاد کررہے ہیں کہ شیطان بھی شرما جائے اور کہے کہ اے چھوٹے شریف مجھے اپنی شاگردی میں لے لے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف دن کی روشنی میں جھوٹ ایجاد کررہے ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے بارے میں لوگ کیا رائے قائم کریں گے۔ لیکن انہیں اس بات کی فکر کیوں ہو وہ خیر سے پنجاب میں مقبول ہیں۔ پاکستانی سیاست دان خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو نہ ہو پنجاب میں مقبول ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر اسے اقتدار نہیں مل سکتا۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ شہباز شریف ’’بھائی جان‘‘ کو تحفظ مہیا کرنے کے لیے جس طرح کے جھوٹ ایجاد کررہے ہیں انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انٹرویو کے وقت میاں صاحب کالے جادو کے زیر اثر چلے گئے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو میاں صاحب غداری کے مرتکب کس طرح ہوسکتے تھے؟۔
شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف اتنے ’’محب وطن‘‘ ہیں کہ انہوں نے بل کلنٹن سے 5 ارب ڈالر لینے سے انکار کردیا اور ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ بلاشبہ امریکا نے پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں 5 ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی مگر دھماکوں کا ’’کریڈٹ‘‘ نواز شریف کو دینا ایک اور صریح جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو میاں نواز شریف کے پاکستان پر سناٹے نے قبضہ کرلیا۔ میاں نواز شریف دھماکے کرنا چاہتے تھے تو بھارت کے دھماکوں کے بعد دو تین دن میں دھماکے ہوجاتے۔ مگر میاں نواز شریف دھماکوں کے سخت خلاف تھے، ان کا خیال تھا کہ دھماکے کرکے ہم امریکا اور یورپ کو ناراض کریں گے۔ ہم پر پابندیاں لگ جائیں گی، اس کے برعکس دھماکے نہ کرکے ہم امریکا سے 5 ارب ڈالر ’’بٹورنے‘‘ میں کامیاب رہیں گے۔ مگر قوم دھماکوں کے حق میں تھی، ہمارے دھماکے بھارت کے ساتھ نفسیاتی جنگ کے حوالے سے زندگی اور موت کا مسئلہ تھے۔ چناں چہ ہرطرف سے دھماکے کرو دھماکے کرو کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ اس زمانے میں جسارت کا اداریہ ہم لکھا کرتے تھے۔ دھماکوں کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ ہم نے 17 دن تک ہر روز دھماکوں کے حق میں اداریہ لکھا۔ مجید نظامی ملک کے ممتاز صحافی، نوائے وقت کے مالک اور میاں نواز شریف کے خیرخواہ اور مشیر تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ میاں صاحب دھماکوں پر مائل نہیں تو انہوں نے نوائے وقت میں لکھا کہ میاں صاحب آپ نے دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کے دھماکوں کے چودھویں دن جنرل جہانگیر کرامت نے میاں صاحب کو پیغام بھجوایا کہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں دھماکے ہونے جارہے ہیں۔ ایٹمی پروگرام مکمل طور پر فوج کے ہاتھ میں تھا اور فوج دھماکوں کا فیصلہ کرچکی تھی۔ میاں صاحب نے یہ دیکھا تو انہوں نے دھماکوں سے دو دن قبل دھماکوں کو ’’گود‘‘ لے لیا۔ ان حقائق کے باوجود شہباز شریف میاں صاحب کی ’’حب الوطنی‘‘ ثابت کرنے کے لیے انہیں ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ دے رہے ہیں۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اگر شہباز شریف میں شرم ہوتی تو وہ چلّو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔ ان معاملات کے باوصف میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ انہیں میاں نواز شریف پر فخر ہے؟ کس بات پر فخر؟ ان کی غداری پر؟ اصول ہے غداری پر فخر کرنے والا بھی غدار ہوتا ہے، غدار کا دوست بھی غدار ہوتا ہے، غدار کا اتحادی بھی غدار ہوتا ہے۔

شاہنواز فاروقی
بعض احمق کہہ رہے ہیں میاں صاحب کو غدار نہ کہو، ارے بھائی جھوٹے کو جھوٹا، کالے کو کالا، کوڑے کو کوڑا، دشمن کو دشمن اور غدار کو غدار نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟۔ اتفاق سے یہاں مسئلہ ایک فرد کا نہیں ہے پورے خاندان کا ہے۔ ’’شریف خاندان‘‘ کا۔ میاں نواز شریف کو بھارت کی ہر چیز پسند ہے، بھارت کی فلمیں اور ان کے گیت بھی۔ چناں چہ میاں نواز شریف اور دیگر ’’شریفوں‘‘ کے حوالے سے بھارتی فلم کے گیت کا مکھڑا پیش ہے۔
’’شریفوں‘‘ کا زمانے میں
اجی بس حال وہ دیکھا
کہ شرافت چھوڑ دی میں نے
شرافت چھوڑ دی میں نے