عالمی بینک کی منافقت

317

عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدے پر مکمل عمل در آمد کرانے کی ضمانت لی تھی لیکن جب پاکستان کا معاملہ آتا ہے تو تمام عالمی ادارے نظریں پھیر لیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ تو امریکا ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام نام نہاد بین الاقوامی ادارے عملاً امریکا کے اطاعت گزار ہیں ان میں سلامتی کونسل بھی شامل ہے۔ اس وقت امریکا کا رجحان بھارت کی طرف ہے اور دونوں میں گاڑھی چھن رہی ہے۔ چنانچہ عالمی بینک بھی بھارت کے حق میں فیصلہ دے گا۔ کشن گنگا ڈیم صریحاً سندھ طاس معاہدے کے خلاف ہے لیکن عالمی بینک نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت روکنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اشتر اوصاف کی قیادت میں پاکستانی وفد کی ملاقات بے سود رہی اور عالمی بینک نے شواہد ناکافی قرار دے کر اعتراضات مسترد کردیے۔ حالانکہ اس معاملے میں ثبوت و شواہد کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ عالمی بینک جس معاہدے کا ضامن ہے صرف وہی اٹھاکر دیکھ لیا ہوتا۔ اس کے مطابق جس دریا پر بھارت کشن گنگا ڈیم بنارہا ہے اس کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم شدہ ہے اور اس دریا کا پانی کوئی ڈیم بناکر نہیں روکا جاسکتا۔ لیکن بھارت کشمیر سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر ایک نہیں کئی ڈیم بنارہا ہے اور مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کا پانی روک کر اسے بنجر بنادیا جائے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اچانک پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کرنا بھی بھارتی عزائم میں شامل ہے۔ ادھر پاکستان میں یہ حال ہے کہ کالا باغ ڈیم کو متنازع بنادیاگیا اور دیگر ڈیم بھی نہیں بن پائے۔ کالاباغ ڈیم کے مخالفین کہتے ہیں کہ اب دنیا میں بڑے بڑے ڈیمز بنانے کا رواج نہیں رہا۔ چھوٹے چھوٹے ڈیمز بننے چاہییں۔ اس کی دعویدار پیپلزپارٹی بھی کئی بار حکومت میں رہنے کے باوجود چھوٹے یا بڑے ڈیمز نہیں بناسکی البتہ کالاباغ ڈیم کے خلاف پورا زور صرف کیا جاتا رہا۔ اگر پاکستان میں نئے ڈیمز بن جاتے تو سیلاب سے بھی بچا جاسکتا تھا اور بارشوں کا پانی بھی ضائع ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔ بھارت نے پاکستان کو نئے ڈیمز بنانے سے نہیں روکا اور بین الاقوامی تجزیے یہ انتباہ کرچکے ہیں کہ آئندہ جنگ پانی ہی پر ہوگی۔ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا تو کیا پتا پانی پر جنگ کا آغاز پاکستان اور بھارت سے ہو۔ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر ویسے ہی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور بی جے پی اقتدار میں رہی تو کسی بھی وقت کوئی بڑا سانحہ ہوسکتا ہے۔ گجرات کا قسائی بھارتی دہشت گرد نریندر مودی اور ہندوتوا کے پرچار کوں نے اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دے دیا ہے اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایک نیا شعبہ قائم کردیا گیا ہے جس میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے نصاب شامل کرلیاگیا ہے۔ اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں اور یہ آبی جارحیت بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے۔ سندھ طاس معاہدہ یقیناًپاکستان کے لیے نقصان دہ تھا جس کے تحت پاکستان نے تین دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کرلیا مگر اب بھارت باقی دو دریاؤں کا پانی بھی روک رہا ہے اور معاہدے کا ضامن عالمی بینک اس پر عمل کروانے سے متعلق بے بسی کا اظہار کررہاہے اور کہاہے کہ تنازعات اور اختلافات حل کرانے میں ہماراکردار نہایت مختصر ہے۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ بھی ہے کہ اپنی ذمے داریاں غیر جانبدار طریقے سے نبھارہے ہیں اور پاکستان بھارت کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔ کیا یہی غیر جانبداری ہے کہ بھارتی آبی جارحیت سے آنکھیں بند کرلی جائیں؟ اگر عالمی بینک ایسا ہی بے بس ہے تو معاہدے پر عمل کی ضمانت کیوں لی تھی۔ پانی کے مسئلے پر اگر پاکستان بھارت تنازع بڑھا تو اس کی ذمے داری عالمی بینک پر بھی ہوگی لیکن شاید وہ امریکا کی نظروں میں سرخروئی چاہتا ہے۔