ہمیں تو یاد نہیں‘ اگر کسی کو یاد ہو تو بتائے کہ عمران خان نے نئے پاکستان کے لیے مسلم لیگ (ن)‘ قاف‘ پیپلزپارٹی اور دیگر تمام جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں اور ارکان اسمبلی سے متعلق کیا کچھ نہیں کہہ رکھا‘ آج یہی لوگ ہیں جو جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں اور خالی کرسیاں پر کر رہے ہیں‘ بلکہ بعض شہروں میں تو ایک کرسی پر کئی کئی لوگ آبیٹھے ہیں‘ عمران خان ہیں کہ سب کو دل سے نہ سہی بظاہر تو خوش آمدید کہہ رہے ہیں کہ مبادہ بھجوانے والے ناراض ہی نہ ہوجائیں ہوسکتا ہے جب تک انتخابات کا باقاعدہ اعلان ہوجائے تو ساری جماعتوں کے دفتر خالی جائیں‘ اور یہ سب لوگ تحریک انصاف کو رونق بخش رہے ہوں‘ ایسے میں کیا ہوگا؟ ایک حلقے سے ٹکٹ تو ایک ہی امیدوار کو ملنا ہے‘ باقی تو شامل باجا ہوں گے یا ووٹ ڈالیں‘ یا پھر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہوں گے۔ بہر کچھ تو ہوں گے‘ اگر ایسا ہوجائے کہ سب جماعتوں کے کارکن تحریک انصاف میں چلے جائیں تو پھر مقابلہ تو دوسروں سے کیا اپنوں ہی سے ہوگا اتنی تیز رفتاری سے لوگ جارہے ہیں کہ ایک حلقے میں کم و بیش دس دس امیدوار ہیں جو پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند ہیں ہمارا سیاسی کلچر کیا ہے یہی ہے کہ جس امیدوار کو ٹکٹ نہیں ملے گا، وہ مخالف کھڑا ہو جائے گا یا مخالفت پر اتر آئے گا۔ اسلام آباد سے لے کر کراچی تک‘ جس بھی جماعت میں جھانک لیا جائے یہی صورت حال بنی ہوئی نظر آتی ہے‘ اگرچہ تحریک انصاف نے ٹکٹ کے خواہش مند تمام امیدواروں اور پارٹی میں شامل ہونے والے نئے رہنماؤں کے لیے پیشگی حلف لینا شروع کر دیے ہیں کہ اگر انہیں پارٹی ٹکٹ نہ ملا تو وہ جماعت نہیں چھوڑیں گے، آزاد حیثیت میں الیکشن نہیں لڑیں گے، کسی دوسری سیاسی جماعت کے ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشش نہیں کریں گے اور وہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار کی مخالفت بھی نہیں کریں گے۔ لیکن ہے کہاں ایسی جمہوریت اور جمہوری رویہ؟ سیاست میں عملاً ایسا ممکن نہیں ہوتا، حلف دینے کے باوجود بھی سیاست دان اس سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں، اور پاکستانی سیاست میں سچ بولنے کا رواج بہت کم ہے۔
حال ہی میں جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا کے بعض حصوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے اہم رہنماؤں کا برملا کہنا ہے کہ اگر ہمیں ٹکٹ نہ ملا تو پارٹی جوائن کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ سب لوگ کہہ رہے ہیں کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم نہیں بتاسکتے جس کو پوچھنا ہے خود ان سے پوچھ لے کہ وہ کیوں تحریک انصاف میں گئے ہیں یا بھجوائے گئے ہیں ان کی اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ الیکشن سے پہلے جو ہوا چلی ہے ہم اس کے تحت اسے جوائن کر رہے ہیں اس کا بنیادی مقصد الیکشن جیتنا ہے۔ اگر کوئی اور مقصد ہوتا تو مسلم لیگ (ن) یا (ق) لیگ چھوڑنے کا کیا فائدہ۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے والے تین اہم رہنما تو واضح موقف دے چکے ہیں کہ ہم پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر پنجاب سے الیکشن نہیں جیت سکتے، اس لیے پی ٹی آئی جوائن کر رہے ہیں اب خود ہی فیصلہ کریں کہ جو الیکشن لڑنے کی نیت سے پی ٹی آئی میں شامل ہوا ہے اسے ٹکٹ نہ ملا تو وہ علاقائی سیاست سے آؤٹ ہو جائے گا۔ یہاں پارٹی کا حلف نامہ کیا کرے گا جہاں یہ ہوگا وہاں جوتیوں میں دال بٹے گی۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ شاہینوں کے شہر کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے کو آئی اور 3مختلف حلقوں کے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے ایکا کرلیا اور عمران خان کو خط لکھ دیا جس میں واضح کیا گیا ہے کہ مقررہ وقت کے اندر درخواستیں دینے والوں میں سے جس کسی کو بھی ٹکٹ دیا گیا تو وہ اس کی حمایت کریں گے، ان کے علاوہ چور دروازے سے مقررہ وقت کے بعد ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کسی امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا تو وہ اس کی مذمت کریں گے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 90، پی پی 77، پی پی 78 کے امیدواروں کی طرف سے چیئرمین پارلیمانی بورڈ کو دی گئی مشترکہ درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ مقررہ وقت میں درخواستیں دینے والوں میں سے جسے پارٹی نے ٹکٹ دیا دل وجان سے اسے کامیاب کرانے کے لیے جہدوجہد کریں گے لیکن اگر چور دروازے سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے داخل ہونے والوں کو ٹکٹ دیا گیا تو مذمت کریں گے اور استدعا کی گئی ہے کہ سرگودھا کے ٹکٹوں کا فیصلہ درخواست گزار امیدواروں کی رائے کے بغیر نہ کیا۔ جائے پی ٹی آئی میں یہ صورت حال ن لیگی ایم پی اے نادیہ عزیز کی پی ٹی آئی میں متوقع شمولیت کے باعث پیدا ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہور چوپو ۔