مگر آٹا سستا رہنے دو

349

صاحبو! آج کل اسکول بند ہیں۔ ہم چھٹیوں پر ہیں۔ کسی غلط فہمی میں مت رہیے گا ہم تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بچوں کو پڑھا کر فارغ ہوتے ہیں تو بذریعہ صحافت بڑوں کو پڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ صبح منہ اندھیرے نکلتے ہیں اور رات گئے گھر لوٹتے ہیں۔ سارا سال خود کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نہ جانے کیا بات تھی۔ ہم نے بیگم کے سفید بالوں پر فقرہ کسا تو انہوں نے ہمیں آئینے کے سامنے کھڑا کردیا۔ آئینے میں خود کو دیکھا تو بے ساختہ منہ سے نکلا ’’کون ہو بڑے میاں۔‘‘ عمر گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ معلوم ہی نہیں ہوا اور ہم نصف صدی کے پار اتر گئے۔ زندگی بدل گئی، زمانہ بدل گیا۔
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دو پہر کی زردیاں
میں آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
آسکر وائلڈ نے کہا تھا پتھروں کے سوا ہر چیز بدل جاتی ہے۔ پتھروں کے سوا اگر کوئی اور چیزیں نہیں بدلی تو وہ حکمرانوں کا ظلم اور ان کی کج ادائیاں ہیں۔ حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ عوام کے احتجاج کا لاحقہ لگایا جاتا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے ظلم سہتے سہتے عوام کی قوت برداشت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آخر کو اشرف المخلوق ہیں۔ بندروں کے ایک ہجوم میں سائنس دان نے ایک بندر کو کھانے کے لیے کیلا دیا۔ اچھا، موٹا، تازہ۔ دوسرے بندر کوگلا سڑا۔ دوسرا بندر اس پر اچھلا کودا۔ خوب احتجاج کیا۔ کچھ دیر میں تمام بندر احتجا ج میں شامل ہوگئے۔ ہمارے حکمرانوں نے تمام صحت مند تروتازہ کیلے اپنے لیے رکھ چھوڑے ہیں اور خراب گلے سڑے عوام کے لیے وہ بھی قلت اور مہنگے داموں۔ پہلے لوگ اس پر احتجا ج کرتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں چینی پچیس پیسے مہنگی ہوئی لوگ سڑکوں پر نکل آئے لیکن حکمرانوں کی بے حسی دیکھ دیکھ کر لوگوں کی قوت مزاحمت دم توڑتی چلی گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ بجلی اور پانی کی قلت پر تو قابو سے باہر ہوجا تے ہیں لیکن کیلوں یعنی غذائی اشیا کی قلت اور مہنگائی صبر سے برداشت کر لیتے ہیں۔ لوگ صبر شکر سے مہنگائی کو برداشت کر رہے ہیں لیکن غذائی اشیا کی قلت اور مہنگائی سے لوگوں کے قلب وجان پر کیا گزرتی ہے۔ کس طرح روز وشب سلگنے لگتے ہیں۔ کم خوراک اور فاقہ زدہ بچوں کو دیکھ کر انسان کس طرح اپنے آپ سے شرمسار ہوتا ہے کاش! اے کاش! حکمرانوں کو اندازہ ہوتا۔ حکمران ہر چیز کی قیمت میں اضا فہ کر لیتے، ہر چیز مہنگی کر دیتے لیکن بجلی اور کھانے پینے کی چیزوں میں اضافہ نہ کرتے۔ پنجابی زبان کے معروف شاعر منظور نیازی کی ایک نظم ملاحظہ فر مائیے۔ ’’آٹا سستا رہن دیو‘‘ آٹا غذائی اشیا کا استعارہ ہے۔
بندے اغوا کرو، تاوان وصولو، بینکاں لٹو
اتوں اتوں رولا پالؤ، آٹا سستا رہن دیو
(بندے اغواکرتے رہو، تاوان وصول کرو، بینک لوٹو، اوپر اوپر شور بھی مچاتے رہو، مگر آٹا سستا رہنے دو)
آپے قرض وصولن والے آپے ہو مقروض تسیں
اپنے قرضے معاف کرالؤ آٹا سستا رہن دیو
(قرض وصول کرنے والے بھی خود ہو اور مقروض بھی خود۔ اپنے قرض معاف کرالو آٹا سستا رہنے دو)
نھیرے وچ وی لبھ لوے گی روٹی منہ دا بوہا
چانن اپنی جھولی پا لؤ، آٹا سستا رہن دیو
(روٹی تو اندھیرے میں بھی منہ کا دروازہ ڈھونڈ لے گی۔ روشنی کو تم اپنی جھولی میں ڈال لو، آٹا سستا رہنے دو)
کنو، سیب، انار تے کیلے خرمانی خربوزے
ساری نعمتاں آپے ہی کھا لو، آٹا سستا رہن دیو
(کنو، سیب، انار، کیلے، خوبانی، خربوزے، یہ ساری نعمتیں خود ہی کھالو، آٹا سستا رہنے دو)
اسیں تے روکھی سکی روٹی مرچاں نال وی کھالاں گے
چرغے، ککڑ آپوں ای کھا لو آٹا سستا رہن دیو
(ہم تو روکھی سوکھی روٹی مرچوں کے ساتھ بھی کھا لیں گے۔ چرغے، مرغ تم خود ہی کھالو، آٹا سستا رہنے دو)
مزدوراں دی جھگیاں چوں دو ویلے دھوں تے نکلے
اپنے محل منارے پا لؤ آٹا سستا رہن دیو
(مزدوروں کی جھگیوں سے دو وقت دھواں تو نکلے اپنے محل منارے تعمیر کرلو مگر آٹا سستا رہنے دو)
صحت تے تعلیم دے اتے اک دھیلہ ناں خرچو
فوج نوں سارا بجٹ کھوا لؤ آٹا سستا رہن دیو
(صحت اور تعلیم پر اک دھیلہ بھی خرچ نہ کرو، فوج کو سارا بجٹ کھلوا دو آٹا سستا رہنے دو)
ملاں دے مزدور پتھیرے روڑی کٹن والے
ساتھوں ہر اک کم کرالؤ آٹا سستا رہن دیو
(ملوں کی مزدوری یا پتھر روڑی کوٹنے کا ہر کام ہم سے کرالو مگر آٹا سستا رہنے دو)
ظلم دیاں زنجیراں دے نال سانوں بنھ کے رکھو
اک دو سنگل ہور وی پا لؤ آٹا سستا رہن دیو
( ہمیں ظلم کی زنجیروں کے ساتھ باندھ کے رکھو بلکہ ایک دو سنگل اور بھی ڈال دو مگر آٹا سستا رہنے دو)
نظم میں نہایت عسرت اور تنگ دستی کی زندگی بسر کرنے والوں کا احوال بیان کیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ سارے تنخواہ دار ایماندار طبقے کا ذکر بھی ضروری ہے جو مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اس طبقے کی حالت بھی انتہائی قابل رحم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں۔ حکمران طبقہ آئندہ الیکشن کے کھیل تماشوں میں مصروف ہے عام اور غریب آدمی کے حال کی کسی کو فکر نہیں۔ یہ حکمران نہیں خون چوسنے والی مافیا ہے جو ہم پر مسلط ہے۔ آخر میں نیلسن منڈیلا کا ایک قول
While poverty stays, there is no Freedom